ڈی مونی ٹیشن کے نام سے مرکزی حکومت نے8اکتوبر2016کو پانچ سو اور ایک ہزارروپے کے نوٹوں کا چلن کالعدم قرار دینے کا جو اعلان کیا، اُسکے کئی مظاہر اب تک سامنے آچکے ہیں، وزیراعظم مودی نے جہاں اس اقدام کو کالے دھن کی ریل پیل ختم کرنے کے حوالے سے ایک تاریخی پہل جتلایا ہے وہیں بیش تر اپوزیشن پارٹیوں نے اسے غریب اور درمیانہ آمدن والے طبقہ کی جیبیں خالی کرکے بینکوں میں جمع رقوم میں اضافہ کی چال قرا ردیا تاکہ آگے چل کر اسے سرمایہ دار طبقہ کی تجارتی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ کرنسی کے تبادلے کیلئے جو ضوابط طے کئے گئے اُس سے نہ صرف عام لوگ بُری طرح متاثر ہو جائینگے بلکہ آیندہ ایام میں ترقی کے فروغ میں روکاوٹ پیدا ہوگی اور متعدد معیشی شعبے بالخصوص زرعی شعبہ بُرح طرح متاثرہوگا کیونکہ ہندوستان میں ربیع فصلوں کی بوائی کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ ایسے میں کسان طبقہ بنکوں کے سامنے نہ ختم ہونے والی قطاروں میں کھڑا ہوکر نوٹ بدلنے کے انتظار میں تڑپتا ر ہیگا یا پھر کاشتکاری کریگا۔ فی الوقت سارے ہندوستان میں شہر و دیہات کے اندر ایک کہرام کی صورتحال ہے اور بنکوں کے سامنے مردوزن ،جن میں کثیر تعداد میں بوڑھے شامل ہوتے ہیں، کی لمبی لمبی قطاریں صبح سے لیکر شام تک کالعدم قرار دیئے گئے نوٹوں کے تبادلے کیلئے اذیتیں اُٹھاتے پھر رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس صورتحال نے اب تک تقریباََ 40 لوگوں کی جان لے لی ہے۔ حکومت کے اس دعوے کہ اقدام کالے دھن کے خاتمے کیلئے کیا گیا ہے،کے غبارے سے ہوا اُس وقت نکلتی نظر آتی ہے، جب ان بنکوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے بیش تر لوگ غریب اور درمیانہ آمدن والے دکھتے ہیں اور انکے پاس کس قدر کا کالا دھن ہوسکتا ہے، اسکی غالباً وضاحت کرنے کی ضرورت ہیں۔ اس پس منظر میں کئی لیڈروں نے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس فیصلے کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارتی نے اپنے حامی بڑے بڑے سرمایہ داروں کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا اور وہ وقت پر کالے دھن کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوگے۔ اس کے لئے کئی حلقوں سے گزرے چھ ماہ کے دوران بنکوں میں جمع شدہ رقوم میں بے پناہ اضافہ کو بطور ایک دلیل کے پیش کیا جا رہا ہے۔ بہر حال سرکار کے اس متنازعہ فیصلے کے جو متعدد مظاہر سامنے آئے ہیں اُن میں یہ بھی انتہائی اہم کہ کشمیر میں اس اقدام ، جسے حکمرانوں نے فخر کے ساتھ سرجیکل سٹرائیک کا نام دیا، سے کوئی ایسی بڑی ہلچل نہیں مچی، جسے دیکھ کر یہ کہا جائے کہ بحران کی کوئی صورتحال موجود ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یہاں زمینی سطح پر اسکے اثرات بہت کم دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ امر مختلف حلقوں کی طر ف سے وقتاً فوقتاً کشمیر میں کالے دھن اور حوالہ رقوم کی موجودگی کے الزام کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ مرکزی حکومت کی بنیادی دلیل یہی ہے کہ زیر بحث اقدام کالے دھن کی ریل پیل کے خاتمے کے لئے کیا گیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کشمیر میں کالا دھن اور حوالہ رقوم ہوتیں تو یہاں بھی صورتحال باقی ریاستوں سے مختلف نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے کشمیر او رکشمیر کو ہمیشہ بدنام کرنے والے عناصر اور حلقوں کے دعوے نہ صرف غلط ثابت ہوئے ہیں بلکہ بھارت بھر کے سنجیدہ فکر طبقے کے لئے یہ ایک چیلنج کے مترادف ہے کہ وہ اس پروپیگنڈا مہم ، جس سے بھارت بھر میں عوام الناس کے ذہنوں میں زہر بھر دیا جاتا ہے ، کا توڑ کرنے کیلئے سامنے آئیں۔ اس میں شک نہیںکہ وادی میں بھی عام لوگوں کو اس فیصلے سے روز مرہ دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہے تاہم اس سے نمٹتے وقت جس صبر و سکون اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ نہ صرف مثالی ہے بلکہ کہیں نہ کہیں یہاں کی اُن روایات اور نفسیات سے ہم آہنگ ہے جو اس قوم کی سربلندی کی ایک علامت رہی ہے۔