سرینگر// وادی میں پچھلے 133دنوں کے نامساعد حالات کے دوران زخموں سے چور سینکڑوںطلبہ و طالبات کی فہرست میں 18سالہ عرفی جان کا نام بھی شامل ہے جو اسوقت صدر اسپتال کے وارڈ نمبر 7میں اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ آنکھوں کا علاج کراناضرورہے یا پھر 12ویں جماعت کی امتحانات میں حصہ لیناضروری تھا۔عرفی سوال پوچھتی ہے کہ اگرامتحانات ضروری تھے تو آنکھوں کی بینائی کیوں چھینی گئی؟۔18سالہ عرفی12ویں جماعت کی طالبہ ہے مگر 31اکتوبر کو عفراء جان اور افروزہ کی طرح ہی فورسز اہلکاروں کی طرف سے چھلائے گئے چھروں سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھوچکی ہے۔ وادی میں امتحانی ماحول کے بیچ امتحانی مراکز سے دور سرینگر کے صدر اسپتال میں زیر علاج عرفی جان آنکھوں میں کالے چشمے لگائے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ زخمی آنکھوں کا علاج کرنا کہیں مستقبل پر بھاری تو نہیں پڑے گا۔ کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے عرفی جان نے بتایا کہ 31اکتوبر کو چھتر گام شوپیاں میںفورسز اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پیلٹ کا بے تحاشا استعمال کیا جس میں کئی نوجوان زخمی ہوئے ۔ عرفی نے بتایا کہ وہ اپنے گھر سے باہر آرہی تھی کہ فورسز اہلکاروں نے اسکو دیکھتے ہی پلیٹ چلائے جو اکثر نشانے سے چوک گئے تاہم کچھ چھرے بائیں آنکھ میں جالگے۔ عرفی نے بتایا کہ پیلٹ لگتے ہی آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا اور میں بے ہوش ہوکر گرپڑی تاہم وہاں موجود لوگوں نے ضلع اسپتال شوپیاں پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے زخموں کی نویت کو سنگین قرار دیتے ہوئے صدر اسپتال منتقل کرنے کی ہدایت دی۔ عرفی نے بتایا کہ 31کتوبر کو صدر اسپتال پہنچتے ہی ابتدائی جراحی انجام دی گئی اور آنکھ کے اندر لگے زخم کو بند کیا گیا ۔عرفی نے بتایا کہ صدر اسپتال میں ڈاکٹروں نے صرف تین دن کے بعد ہی روانہ کردیا اور اب دوسری بار بلایا ہے اور اب دوسری جراحی سے گزرنا ہے۔ عرفی کہتی ہے کہ امتحانات میں بیٹھنے کیلئے زخموں کے باوجود بھی میں تیاریوں میں جٹ گئی تھی مگر آنکھ میں لگے زخموں سے اٹھنے والا درد ہمیشہ سر کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جس سے امتحانات کی تیاریاں بھی نہیں ہوسکیں۔عرفی نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں نے امتحانات کے آغاز سے قبل جراحی کیلئے واپس اسپتال بلایا اور میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھی کہ امتحانات میں بیٹھانا ضروری ہے یازخمی آنکھوں کا علاج کرنا ۔ عرفی نے کہا کہ اگر وزیر تعلیم کیلئے امتحانات ضروری تھے تو فورسز کو پیلٹ چلانے سے کیوں نہیں روکا ، کیوں ہماری آنکھوں کی بصارت کو چھینا گیا ۔ عرفی کہتی ہے کہ مستقبل کا دارومدار تو آنکھوں کی بصارت پر ہے، آنکھیں ٹھیک ہونگی تو مارچ میں بھی امتحانات میں شرکت کرسکتے ہیں مگر تب بھی زخمی طالبہ و طالبات کو کوئی خاص رعایت ملنی چاہئے۔واضح رہے 9جولائی کو مظاہروں کے آغاز کے ساتھ ہی خواتین کے خلاف استعمال کئے گئے پیلٹ گن کی وجہ سے 14سالہ طالبہ انشاء مشتاق پہلے ہی اپنی دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکی ہے جبکہ 31اکتوبر کو چھروں کے استعمال سے زخمی کی گئی پانچوں طالبات میں سے 13سالہ عفراء جان کی صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں ہے اور انشاء کی طرح ہی افراء ، شبروز اختر ولد محمد اکبر ، شروز اختر ولد محمد اکبر ساکنان روہموکے علاوہ شوپیاں کی رہنے والی عرفی جان کو بھی پیلٹ لگے تھے۔