Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہجمعہ ایڈیشن

یکساں سول کوڈ۔۔۔ بے سود بحثیں!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 25, 2016 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
40 Min Read
SHARE
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو صدیوں سے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے مذاہب کا نہ صرف گہوارہ رہ چکا ہے بلکہ اس ملک کی صدیوں پرانی روایات ہیں جو آج بھی زندہ وجاویدہیں۔یہاں کے حکمرانوںنے چاہیے وہ مسلم تھے یا ہندو یا انگریز، سب نے ان روایات کو ختم کیا نہ ان معاملات میں کوئی ریاستی سطح کی مداخلت کی، بلکہ انہوں نے مسلم کمیونٹی کے پرسنل لازاور شخصی احوال کی آبیاری کی اوران کی صدیوں پرانے روایات اور ان کے عقائد و نظریات ، تہذیب و تمدن کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا مگرجب ہندوستان نے انگریروں کی غلامی سے آزادی حاصل کی تو جدت پسند طبقہ کا یہ خیال تھا کہ ملک کو مزید توڑپھوڑ سے بچانے کے لیے یہاں بقول ان کے ایک ایسا قانون نافذ ہو جس کے مطابق تمام لوگوں کے ساتھ عائلی اور دیگر معاملات میں یکساں سلوک کیا جاسکے اور تمام لوگ مساویانہ حقوق حاصل کرسکیں ۔اس مقصد کے حصول کے لئے  1950ء میں دستور ِہند کی تشکیل کے وقت ڈائریکٹو پرنسپلز آف سٹیٹ پالیسی کے عنوان سے ایک سفارشی دفعہ میں یکسان سول کوڈ کو بھی اس رہنما اصول کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا۔اس کا بنیادی مقصد بظاہر قومی اتحاد اور ملکی یک جہتی کا حصول تھا۔اس دفعہ کی آڑ میں ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے گروہ نے مختلف مذاہب وافکار سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف ستانا شروع کردیا بلکہ انتہائی بدسلوکی کا رویہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ چند سرپھروں کو اسی کی آڑ میں قتل بھی کیا گیا اور ہندی مسلمانوں سے خاص طور یہ دھمکی دی گئی کہ وندے ماترم پڑھو،گائے کا گوشت مت کھاؤ ، ورنہ ہمسایہ ملک پاکستان بھاگ جاؤ۔ حد یہ کہ اعلیٰ سطح کے چند مخصوص جج صاحبان بھی اعلیٰ عدالتی بصیرت  کے باوجوداس سوچ کی آہنی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یہ تصوردراصل انگریز نظام کا ایک حصہ تھا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یکسان سول کوڈ کے ذریعہ دراصل بھارت مغربی دنیا کا ہمسربن سکتا ہے مگر یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے ،نہ بھارت مغربی ممالک کی طرح ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہاں مغربی ممالک جیسا قانون ہی نافذ ہوسکتاہے کیونکہ یہ ملک زمانہ قدیم سے ایک کثیرثقافتی اور کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک رہا ہے جو اس کی سب سے بڑی منفرد خوبی ہے ۔ یہی وجہ ہے گاندھی جی نے ابتدا ء سے ہی اس ملک کے لئے اپنا روایاتی نظام کوہی زیادہ پسند کیا اور اسی کی بر تری کے لئے کوشان بھی رہے ۔ دستورِ ہند بنانے واالے ڈاکٹر امبیدکر کا یہ خیال تھا کہ یکسان سول کوڈ کو نافذ کرکے ہندو کے جو روایاتی قوانین ہیں، ان کاخاتمہ کیا جاسکے گا اور ملک کو جدیدخطوط پر استوار کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ وہ بذات خود ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتے تھے، انہیں معلوم تھا ان کے ساتھ کیا سلوک ہورہاہے مگر ان کا یہ فلسفہ کوئی رنگ نہ لاسکا۔ اس کے بعدجواہرلال نہرو کی قیادت میں یہ کوشش کی گئی کہ اس رہنما اصول کو اپنایا جائے مگر وہ جانتے تھے کہ قرطاس پر لکھنے سے یہ نافذ نہیں ہوسکتا ہے اور ایک کثیرثقافتی معاشرے میں اس کا نفاذ اتنا آسان بھی نہیں۔اس بنا پر وہ بھی اس آئینی باب کو نافذ نہ کرسکے۔ اب ایک خاص فرقہ کی مخصوص ذہنیت رکھنے والے لوگ جنہیں ہندو انتہا پسند کہنا زیادہ مناسب ہے‘ نے ہمیشہ مسلمانوں سے جان چھڑانے کی خاطر اور سیاسی برتری حاصل کر نے کی نیت سے اس قانونی باب نافذ کرنا چاہا مگر وہ بھی بری طرح ناکام ہوگئے۔ اب جب سے ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی جو اکھنڈبھارت کے علاوہ ہندو‘ ہندی ‘ ہندوستان کے نعرے پریقین رکھتی ہے، وہا س مسئلے کو اچھال رہی ہے ۔اس کا مشاہدہ ہم سب آئے دن کرتے رہتے ہیں ۔ چندروز پہلے کے اخبارات خاص کر ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘اٹھا کر دیکھ لیں تو یہ بات روزروشن کی طرح ہوگی کہ اس جماعت کی کیا سوچ ہے اور ہندوستان کے بارے میں یہ لوگ کیاسوچتے ہیں۔RSS کے سر براہ موہن بھاگوت نے کھلے لفظوں میں اعلان کیا ہے کہ یہ ہندو ؤںکا ملک ہے اور یہاں پر اکثریت ہی کا راج ہوگا۔ ان باتوں سے واضح ہوجاتاہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اوران کے مستقبل کا ایجنڈاکیا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے؟ یہاں ہم صرف یکسان سول کوڈ پر ہی بات کریں گے۔
 بھارت کے لا کمیشن (The Law Commission of India)  نے 7 ؍ اکتوبر 2016ء کو ایک اپیل جاری کی جس کے ساتھ ایک سوال نامہ بھی منسلک ہے، اس میں متعلقہ پارٹیوں سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ ملک میں یکسان سول کوڈ کونافذ کرنے کے لئے سپریم کوٹ آف انڈیااور حکومت وقت سے بھر پور تعاون کرکے ملک کے اندر نافذ مختلف مذاہب کے عائلی قوانین میں ترمیم اور اصلاح کے لئے اپنی آراء اور تجاویز پیش کریں تاکہ بھارت میں رہنے والے کمزور طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے خاص کر مسلمانوں میں رائج سہ طلاق کا خاتمہ کیا جائے اور تمام باشندگان کے لیے ملک میں یکسانیت کو ممکن بنایا جاسکے ۔اسی دن مرکزی حکومت کی جانب سے ہندوستانی سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرکے کورٹ کو بتایا کہ وہ مسلم پرسنل لا کے تحت سہ طلاق اور تعدد ازدواج کے خلاف ہے ،لہٰذا ان ضوابط کو کالعدم قراردیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے وزیر اعظم نر یندر مودی نے بڑے شدومد کے ساتھ سہ طلاق کا مسئلہ اٹھا کر اس کا بات عندیہ دیا کہ یہ مسلم خواتین کے ساتھ ایک ظلم ہے ،اسے ختم ہونا چاہیے۔ اب جو صورت حال یہ ہے کہ عدالتیں مسلم پرسنل کے خلاف فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ یہ عدالتیں باربار حکومت کو متوجہ کررہی ہیں کہ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تمام باتیں ان لوگوں کی جانب سے ہورہی ہیں جن کا مسلمانوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے نہ ہی ان کے مذہبی عقائد سے واقف ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دستور ہندکے رہنما اصول کی دفعہ 44 کے تحت حکومت ہند اور یہاں کی عدلیہ اس بات کے پابند ہیں کہ پورے ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے چاہیے وہ کسی بھی مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ‘کے لئے شادی بیاہ‘ وراثت‘ گود لینے جیسے قوانین یکسان ہوں۔ ان میں چار شادیوں کا مسئلہ بھی شامل ہے جس کے خلاف پہلے سے مختلف درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کردی گئیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ قانو ن نافذ ہو یا کیا جائے تو اس سے اقلیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور اس کے نتائج کن صورتوں ظاہر ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ عام ہندو اکثریت نہیں بلکہ ایک خاص نظریہ رکھنے والے ہندو اس کی وکالت کرتے ہیں و ہ بھی اس گرفت سے نہیں بچ سکتے ہیں، ان کے ہاں مسلمانوں کے مقابلہ میں زیادہ فرقے اور شخصی قوانین پائے جاتے ہیں اور مختلف ذات پات کی بنا پر ان کا معاملہ کچھ زیادہ ہی سنگین ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس قانون کے نفاذ کے حق میں ہیں ان کی غرض و غایت اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ اس کے ذریعہ وہ دوسری اقلیتوں کو قانونی طور سے محکوم بنائیں تاکہ انہیںسر ُابھارنے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔
یکسان سول کوڈ کا معنی و مفہوم۔
  آیئے سب سے پہلے ہم اس کے مفہوم و معنی پر غور کریں ، پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اس کے کیا محرکات ہیں اور اس کے بنیادی عوامل کیا ہیں۔ کیا اس کو کبھی نافذالعمل بھی سمجھا گیا اور کیا یہ ممکن ہے کہ تمام مذاہب کے پیرو کاروں کے لیے ایک ہی قانون موزوں  ثابت ہو؟ جہاں تک اس کے معنی و مفہوم کا تعلق ہے وہ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ‘ ایک یکسان اور دوسرا سول۔ انہی دو باتوں سے یکساں سِول کوڈ Uniform Civil Code کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے ۔یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ تمام باشندگان ہند کے لیے شخصی قوانین بالکل ’ ایک جیسے اور مشترک ‘ہوں۔دوسرے یہ کہ یہ قوانین سول ‘ یعنی خا لض دنیوی اور وضعی نوعیت کے ہوں اور مذہب سے اُن کا کوئی تعلق نہ ہو۔ وہ تمام تر انسان کی اپنی ہی ذہنیت کی پیداوار ہوں۔ ان دو باتوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یکساںسِول کوڈ کا بنیادی مدعا واضح طور یہ ہوا کہ بھارت کی حکومت عائلی اور معاشرتی معاملات کے بارے میں بطورِ خود ایک مجموعۂ قوانین بنا دے اور پھر رائج الوقت سارے شخصی قوانین کو منسوخ کر کے پورے ملک کے تمام باشندگان جن میں ہندوئوں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں ، جینوںاور یہودیوں سبھی پر اسی ایک یکسان مجموعۂ قوانین کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کے بعد ہر فرقے اور ہر فرد کے شخصی اور معاشرتی مسائل اسی کے تحت آئیں گے اور اس کے متعین کیے ہوئے ضابطوں کے مطابق ہی امورِ حیات انجام پا سکیں گے اور انہی کے مطابق عائلی معاملات میں عدالتی فیصلے ہو سکیں گے۔ اس میں مذہبی قوانین کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا ،نہ ہی وہ کسی سماعت کے قابل یا اہمیت کے حامل ہوں گے۔جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ تمام عائلی قوانین جن میں شادی بیاہ ‘ نکاح و طلاق ‘ خرید و فروخت‘ وراثت کے اصول و ضوابط‘  زوجین کے حقوق‘ ثبوت نسب‘ وصیت اور وقف وغیرہ  چیزیں آتی ہیں ، وہ حکومتی وضع کردہ سول کوڈ کے مطابق ہی انجام پا ئیں گے۔ ان میں کسی مذہبی اصول و ضابطے کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔یہ بات ذہن میں رہے کہ یکسان سول کوڈ کے نفاذ کے بعد کسی اور قانون‘ کسی ضابطے، رواج یا شریعت اور مذہب کو نہ کسی معاملے میں دخل دینے کا اختیار ہو گا نہ اجازت ہوگی ، کیوں کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت باقی ہی نہ رہے گی۔ اس طرح سے دوسرے تمام مذاہب کی آسمانی کتابوں یا ان کے قوانین کی کوئی حیثیت نہ رہے گی اور نہ ہی ان کے مطابق کوئی کارروائی قابل اعتناء سمجھی جائے گی بلکہ ملک میں صرف ایک قانون کی حکم رانی ہوگی جس کا نام یکسان سول کوڈ ہوگا۔
یہ ہے وہ یکسان سول کوڈ جو بھارتی سرکار اور عدلیہ یہاں کے مختلف مذاہب کے پیرو کاروپر نافذ کرنا چاہتی ہے اوراس کو قانون کا جامہ پہنا دینے کے لیے ملک کے وزیر اعظم سے لے کر ہندوتو کے نمائندے ایک منصوبہ بند کوششں کے ذریعہ اس کو عملانے کی کوششیںکررہے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی اہم  اقدام ہے ہوگا اور اس کو اگر نافذ کیا گیا یا عملایا گیا تو اس کے بہت ہی دور س نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ گذشتہ ستر سال سے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں مگر اس کوڈ کانفاذ مختلف وجوہات کی بنا پر عمل میں نہ آسکا۔ آج بھارت میں جو طبقہ مسند اقتدار سنبھالے ہوئے ہے ،ا س کی ذہنیت سے کون واقف نہیں‘ ا س کاایجنڈا سب پر عیاں ہے، یہ طبقہ ا س مسئلہ کو کچھ زیادہ ہی اچھال رہا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ پورے ہندوستان کو اپنے رنگ میںرنگنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے گزشتہ کئی سال سے مختلف طریقے حربے بھی اپنائے گئے اور اب بھی اپنائے جارہے ہیں۔ ان میں گھرواپسی کا منصوبہ‘ اور گائو رکشا جیسے واقعات ملک میں بار بار دہرائے جارہے ہیں ۔ا گرچہ بات یہ کہی جارہی ہے کہ یہ زیادہ تر الیکشن ایشو ہے اور اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا زعفرانی ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ، جو کسی حدتک صحیح بھی ہے مگر یہ ایک سطحی سوچ ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک اہم تغیر وتبدل ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے بنیادی مواخذ و مقاصد سے پوری واقفیت اور اس کااستدراک حاصل کریں اور گہرئی سے ان مقاصد تک پہنچنے کی کوشش حاصل کریں جو اس بارہ میں موجودبھارتی سرکار کے پیش نظر ہے۔
 یکسان سول کوڈ کی اصلی بنیادیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ اس تجویز کی فکری بنیاد اور اصل نظریہ یہی سوچ ہے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں مذہب کا کوئی تعلق نہ ہے اور نہ ہونا چاہیے ۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ مذہب کا تعلق عالم ِارواح یا رُوحانیات سے ہے، یہ بھگوان سے ایک روحانی رشتے کا نام ہے، جب کہ انسانوں کے مسائل کا تعلق دنیوی زندگی اور مادی معاملات سے ہے۔ مذہب انسانی قلب و روح اور ضمیر کو اپیل کرتا ہے  ، جب کہ یہ انسانی تہذیب اور اس کی دنیاوی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا ہے۔ اس کا مقصود، انسانی رُوح کو پاکیزہ اور تابناک بنانا ہے، نہ کہ اس کی دُنیوی زندگی جھمیلوں میں اُلجھانا ہے۔ اس لیے اس زندگی کے مسائل اور معاملات اس کی دلچسپی کی چیز ہو ہی نہیں سکتے اور جب یہ مسائل اس کی دلچسپی کی چیز نہیں ہو سکتے تو ان کا حل معلوم کرنے کے لیے اس کی طرف دیکھنا غیر ضروری ہی نہیں غلط اور بے فائدہ بھی ہے۔ اب جب کہ دنیا کے مسائل و معاملات سے اور ان کے حل کی بحث سے مذہب الگ ہے تو ضروری ہے کہ اس حل کے لئے عقل اور تجربے کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہی عقل اور تجربہ وہ چیزیں ہیں جو صحیح اور غلط، مناسب اور نامناسب، مفید اور مضر کی معرفت بخش سکتی ہے اور یہی رہنمائی کی صلاحیت بھی اپنے ا ندر رکھتی ہیں۔ ا س خدا بیزار سوچ کے تتبع میںدوسرے تمام معاملات کی طرح شخصی اور عائلی معاملات کے بارے میں بھی قوانین و ضوابط وضع کرنا صرف انسانی عقل اور دماغ کاہی کا کام ہے، مذاہب سے اسے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ یہی وہ سوچ ہے جو مغرب اور یورپین ممالک نے اپنائی ہے۔ ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ جب تک ہندوستان مغرب کی طرح اپنے روز مرہ مسائل میں مذہب کو ریاست سے الگ نہیں کرتا وہ کبھی نہ متحد ہوسکتا ہے ،نہ ہی ترقی کے منازل ہی طے کرسکتا ہے ۔ ہندوستان میں یہ سوچ ابھررہی ہے کہ ہمیں بھی مغربی ممالک طرح یہاں ایک ہی قانون کی حکمرانی وضع کرنی چاہیے۔ یہ ہے شخصی قوانین کے’ ’ سول ‘‘ ( یعنی غیر مذہبی ) ہونے کی فکری اساس ۔ان کے یونیفارم، (یکساں اور مشترک) ہونے کی اساس بھی اسی بنیاد پر مبنی ہے ،یعنی قوانین کے غیرمذہبی اور وضعی ہونے ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ سارے شہریوں کے لیے یکساں ہوں۔ اگر حقیقت یہ ہے کہ مسائل زندگی کا حل بتانے والی اور ان کے سلسلے میں مناسب قوانین وضع کر نے والی شئے انسان کی اپنی عقل اور شعور ہی کو ہونا چاہیے، کوئی آسمانی علم یا سند اس کے درکار نہیں تو بات اب یہ نہیں ہو سکتی کہ ایک ہی ملک کے باشندوں کے لئے، محض اختلافِ مذاہب کی بنا پر، یہ ’’حل‘ ‘اور یہ ’’قوانین‘‘ مختلف ہوں، ایک فرقے کے لیے تو نکاح اور طلاق، وراثت اور وصیّت کے ایک طرح کے قوانین موزوں ہوں اور دوسرے فرقے کے لیے کچھ دوسری طرح کے ۔ اس لئے انسانوں کے درمیان سے’ ’مذہب‘‘ کی بحث ہٹ جانے کے بعد سماجی مصلحتیں اور تمدّنی ضرورتیں ہی ان قوانین کے واحد بنیاد  متصورہوںگی، اور انہی کو سامنے رکھ کر یہ قوانین بنائے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ عناصر سمجھتے ہیں کہ سماجی مصلحتیں اور تمدّنی ضرورتیں سارے باشندگانِ ملک کی ایک ہی جیسی ہیں اور رہیں گی، اس لئے یہ سوچنا خلافِ واقعہ ہوگا کہ ایک ہی ملک کے رہنے اور ایک ہی نظامِ اجتماعی کے تحت زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے مسائلِ اور مصالح مختلف النوع ہوں۔ یہ مسائل اور مصالح یقینا عام اور ہمہ گیر اور ہمہ رنگ ہوں گے۔ اس لیے ان مسائل کے حل اور ان مصالح کی تکمیل کے لیے بنائے جانے والے شخصی قوانین بھی ہم شکل اور ہم رنگ ہی ہونے چاہئیں۔ یہ بالکل غیر منطقی بات ہوگی کہ مختلف فرقوں کی عائلی اور معاشرتی زندگی کی تنظیم و ترتیب کے لیے الگ الگ قوانین کی ضرورت محسوس ہو۔ ایک ہی جیسے حالات، مصالح اور سماجی ضروریات سے دو چار افراد کے لیے قوانین و ضوابط بھی ایک ہی سے درکار ہو سکتے ہیں، اس لئے  باشندگان ِملک کے لئے مناسب شخصی قوانین کا جس طرح سِول (غیرمذہبی) ہونا ضروری ہے، اسی طرح ان کا یکساں (یونی فارم) ہونا بھی ضروری ہے۔ 
یکسان سول کو ڈ کے مقاصد و اہمیت 
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ یکساں سول کوڈ کی تجویزکے حامیوں اور علم برداروں کے نزدیک، صرف یہی نہیں کہ نظری اور اُصولی لحاظ سے ایک معقول اور ضروری تجویز ہے بلکہ یہ بات بہت ہی زور دے کرکہی جاتی ہے کہ یکسان سول کوڈ کے ذریعہ ملکی مقاصد اور ترقی کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ اہم اور عظیم مقاصد ان لوگوں کی وضاحت کے مطابق حسبِ ذیل ہیں:
ملک اور قوم میں اتحاد و یکجہتی 
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نئے بھارت کے معماروں کے ہاتھوں 1950 ء میں جب دستور تشکیل دیا جارہا تھا اور یہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھا،اسی وقت ملک کے دستور میں دفعہ 44 کو ایک رہنما اصول کے مطابق متعارف کرایا گیا جس کا بنیادی مقصد بظاہر قومی اتحاد اور ملکی یک جہتی کا حصول تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اتحاد بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک کی ترقی اور اہل ِملک کی فلاح و خوش حالی کی لازمی شرط اور بنیادی ضرورت ہے ۔اس لئے بھارت میں یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کے بغیر اس اتحاد اور ملکی یکجہتی کا حصول مشکل ہے ۔ یکساں سِول کوڈ کے بغیر قومی اتحاد اس لیے حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس ملک میں بہت سے مذاہب کے ماننے والے اور بہت سے فرقے پائے جاتے ہیں جو اپنی روایات اور اپنے الگ الگ پرسنل لاء کے مطابق نہ صرف روزمرہ کے کام انجام دیتے ہیں بلکہ وہ اپنی رویات اور مذاہب کے اعتبار سے مختلف ہیں‘ ان کی تہذیب و تمدن‘ رہن سہن اور ان کی روایتیں اور رواجات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان ایک واحد قوم نہیں بلکہ مختلف سماجی اور مذہبی گروہوں پر مشتمل انبوہ ِ آدم ہے، جنہیں جغرافیائی حالات نے ایک مجموعۂ افراد کے طور اتفاقاً اکٹھا کر رکھا ہے۔ یہ احساس انہیں کبھی متّحد اور یک جہت نہ ہونے دے گا، اس لئے اگر حکمرانوں کو ملک کا اتحاد عزیز ہے تو تمام فرقوں اور اکائیوں کو ایک مشترک قانون کے تحت لانا قطعی ضروری ہے جس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ یہ یکسان سول کوڈ کے حامیوں کا مانناہے ۔
یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ دستورسازوں نے آئین ِ ہندبناتے وقت مذہب کا جو تصور پیش کیا تھا، ان میں خاص کر دو شخصیات کا تذکرہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مسٹر کے ایم منشی اور دوسرے ڈاکٹر بی اے امبیڈ کر ۔ا ن کی تقریروں کے دو مختصر اقتباسات پیش کرنا ضروری ہے تاکہ یکسان سول کوڈ کے تصور کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اول الذکر ہندوستان دستور ساز اسمبلی کی مسودہ کمیٹی کے اہم رکن تھے جب کہ موخرالذکر اس کے چئیرمین تھے ۔ مسٹر منشی نے تمام ملک کے لیے یکسان سول کوڈ کی ضرورت پر اظہار خیال کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی میں کہا تھا : ’’ مذہب کو ان گوشوں تک محدود کرینا ضروری ہے جو جائز طور سے مذہب سے متعلق ہوسکتے ہیں اور بقیہ زندگی کو اس طرح منضبط‘ متحد اور معتدل کردینا چاہیے تاکہ جس قدرجلدممکن ہو ہم ایک طاقت ور اور مستحکم قوم وجود میں لاسکیں‘ ہمارا سب سے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ اس ملک میں قومی وحدت پیدا کرنے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہماری پوری زندگی جس حدتک ممکن ہو وہ یک رنگ اور سیکولر طریقہ سے یک رنگ بنادی جائے تا کہ ہم جلد سے جلد یہ کہنے کے قابل ہوجائیں کہ ہم محض اس لیے ایک قوم نہیں ہیں کہ ایسا کہتے ہیں بلکہ عملًا بھی ایسا ہی ہے‘ اپنے طریق زندگی کے ذریعہ اپنے پرسنل لا کے ذریعہ ہم ایک مضبوط اور متحد قوم ہیں‘‘۔
اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈ کر نے کہا تھا: ’’ ہمارے ملک میں مذہب کا تصور اتنا وسیع ہے کہ وہ پیدائش سے لے کر موت تک ہرچیز پر حاوی ہے، کوئی چیز ایسی نہیں جو مذہب نہ ہو ۔اگر پرسنل لا ء کو بجالانا مقصود ہے تو میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم سوشل معاملات میں ٹھہروا سے دوچار ہوجائیں گے۔اب ہمیں مذہب کی تعریف اس طرح محدود کردینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اسے عقائد اور ایسے مذہبی رسوم سے آگے نہ بڑھنے دیں جو مذہبی تقریبات سے متعلق ہوسکتی ہیں‘ یہ ہر گزضروری نہیں ہے کہ اس قسم کے قوانین مثلاً کاشت کاری کے قوانین یا وراثت کے قوانین مذہب کے تابع رہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا :’’ میں ذاتی طور سے یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہب کو اتنا وسیع حلقۂ اقتدار کیوں دے دیا جائے کہ وہ پوری زندگی پر حاوی ہوجائے‘‘۔
ان خیال آرائیوں کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آپ آج کے لاء کمیشن کی تجویز اور ا ہداف کا ذرا غور سے مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہی روح نظر آتی ہے ۔ وہ بزبان حال وقال کہتا ہے کہ یہ ملک سیکولر ہے اورہمارا بنیادی مقصد بھی ملک کی تعمیر سکولر بنیادوں پر ہی کرنا ہے جس میں مذہب کی کوئی اجارہ داری نہیں ہوگی ۔تمام شہریوں‘ تمام مذاہب کے نمائندوں‘ سماجی گروپوں سے اپیل کرکے اس نے اگرچہ اپنا دائرہ وسیع کیا ہے تو مقصود یہی ہے کہ تمام لوگوں سے جب رائے لی جائے تو لازمی طور اس میں بہت سی اقلیتوں کا ووٹ شمار ہوگا اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہماری تجویز کے ساتھ مختلف مذاہب اور فرقوں سے وابستہ اقلیت کے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے ہمیں یکسان سول کوڈ نافذ کرنے کی تجاویز بھی دی ہیںاور ان کی رائے کو وزن دے کرہم اپنے ا ہداف پورا کریں گے۔ 
ہندوستان کی تعمیر میں دستور کا بنیاد کردار 
دوسرا مقصد لاء کمیشن اور حکومتِ ہند کا یہ ہے کہ دستورِ ہند کے مطابق تمام باشندگان ِ ملک یکسان ہوں جو دستور ہند کی اصل منشاء بھی ہے ۔ ان کی یہ دلیل ہے کہ ملک کا دستور سیکولر ہے ،جس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل ِملک کا باہمی رویّہ ہی نہیں، زندگی کے مسائل اور معاملات میں ان کا طرزِ فکر و عمل بھی غیرمذہبی ہو۔ ان کے مذہبی عقائد اور طریقِ عبادت میں چاہے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مگر جہاں تک ان کے دنیوی معاملات کا تعلق ہے تمام لوگ ان میں’’دنیوی‘‘ اسلوب ِ عمل ہی اختیار کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا،تو ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب اپنے اپنے  مذاہب اورماضی سے کی رویات سے چمٹے رہیں گے جو ملک کے دستور اور ملک کی یکجہتی کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا ۔ یہ اس ملک کی اصلی قومی اور سیکولر روح کے لیے سم قاتل ثابت ہوگی اور اس سے بھارت میں سیکولرازم کی رُوح کبھی جاری و ساری نہ ہو سکے گی۔ یہی مدعا تھا جس کی خاطر دستورِ ہند کے رہنما اُصولوں میںبجا طور پر ایک اُصول یہ بھی رکھا گیا کہ : ’’ریاست کوشش کرے گی کہ پوری مملکتِ ہند میں یکساں سوِل کوڈ وجود میں لائے۔‘‘ یہ بات بھی باربار دہرائی جاتی ہے کہ یکسان سول کوڈ قومی ترقی کا زینہ ہے اور دور جدید کی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ۔ اس لیے بھی اس کا نفاذ ضروری ہے ۔یکسان سول کوڈ کے نفاذ کے ضمن میں لاء کمیشن یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ پرسنل لاء یا شخصی قوانین دراصل ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعہ آسانی کے ساتھ دوسرے لوگوں کا استحصال کیا جاتاہے اور ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ اس کی مثال گائوں کے پنچابتی نظام کو بتایا جاتاہے کہ کس طرح سے وہ دوسروں کو اپنے پنجوں میں گاڑتے ہیں اور ان پر اپنے فرسودہ شخصی روایاتی قوانین کا نفاذ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ’’ستی‘ ‘کی رسم جس کی بنا پر عورت کا ناحق قتل ہوتا ہے یا پھر مسلمانوں میں رائج تین طلاقیں جس سے مسلم عورت کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے یا پھرمندروں میں خواتین کا داخلہ اور عبادات میں ان کی شمولیت وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں،جن کو شخصی قوانین کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتاہے۔ یکسان سول کوڈ کے حامی یہ بھی بتاتے ہیں کہ الیکشن کے زمانے میںووٹروں کو بھی اس کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ووٹ بنک پالیسی کو موثر بنانے میں بہت ہی اہم ثابت ہوگا جیسا کہ سیاست دان الیکشن کے زمانے میں مذہب کے ساتھ ساتھ ذات پات کا کھیل کھیل کر لوگوں کو الو بناتے پھر تے ہیں ۔ مشترکہ  قانون کے ذریعہ اس پر روک لاگائی جاسکتی ہے۔ آخری مقصد یہ بیان کیا جاتاہے کہ یکسان سول کوڈ کے ذریعہ لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا آسان ہوگا اور ترقی دشمن عناصر سے نجات کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے ۔یہاں پر یہ موقع نہیں کہ مذکورہ بالامقاصد میں سے ہر ایک کی الگ الگ تشریح کی جائے مگر جہاں تک کسی ملک کی سا  لمیت ‘ اتحاد یا قومی یکجہتی کا تعلق ہے ان میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں۔ مثال کے طور ہندوستان کے معاشی نظام کو کس طرح سے مضبوط کیا جائے؟ پیچیدہ سیاسی اور معاشرتی مسائل کو کس طرح سے حل کیا جائے؟ ملک کی کرنسی کو کس طریقہ سے کنٹرول کیا جائے؟کالے دھن اور مافیا کو کس طرح روکا جائے ؟یہاں سیکولر ازم اور یکسان سول کوڈ کی کوئی بات نہیں کرتا نہ ہی یکسان سول کوڈ کو ہی زیربحث لایا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’’ کہ مذہبی آزادی نہ سیکولرزم کے لئے خطرہ ہے اور نہ تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے آزادی مذہب کے لیے بے حد اہم ہے یا یوں کہا جائے کہ جن جن معاملات میں ہندوستانی جمہوریت پیچیدہ سماجی، معاشی اور سیاسی مسائلِ کو حل کرنے میں مصروف ہے، ان میں مذہب کی کوئی آواز نہیں۔
اب اگر انڈین لاء کمیشن اور حکومت ہند کی تجویز اور اس کے مقاصد کا جائزہ لیاجائے تو مختلف مذاہب اور مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے لئے سیکولرازم کی متضاد تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے: ’’ہندو برادری کے لیے سیکولرزم کا اعلان ہے کہ گائو کشی پر پابندی کے مسئلے کا فیصلہ صرف سماجی اور معاشی بنیادوں پر ہوگا، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ مسلم برادری کے لیے سیکولرازم کا اعلان ہے کہ مشترک سِول کوڈ (کے مسئلے پر) ، تعدد ازدواج اور سہ طلاق کو ختم کرنے کے مسئلے پر سماجی بنیادوں پر غور ہوگا، قرآن و حدیث یا اسلامی شریعت کے حوالے سے کسی حکومتی ادارے کا کوئی بھی فیصلہ یا مداخلت قابل قبول نہیں ۔اس طرح عیسائی برادری کے لیے سیکولرازم کا اعلان ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے فوری مسئلے کا فیصلہ صرف عقلی بنیاد پر ہوگا اور پاپائے اعظم کے فرمان یا بائبل کو اس ضمن میں نہ بطور جواز پیش کیا جائے اور نہ اُس کو دلیل مانا جائے۔ اتحاد (ملکی) کا فلسفہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اپنی زبان اور مذہب سے وفاداری رکھی جائے، لیکن ساتھ ہی اصرار یہ کرتا ہے کہ اصل اور اعلیٰ وفاداری ہندیونین اور سیکولرزم سے ہونا چاہیے۔
دور جدید فرسودہ روایات سے نجات
 سول کوڈ کے حوالے سے تیسرا مقصد اور محرک یہ بیان کیا جاتاہے کہ شخصی قوانین جو اس ملک میں صدیوں سے جاری و ساری ہیں ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ہیں۔ان صدیوں پرانی روایات اور قدامت پسندانہ رواجات سے نجات پا کر ہی ہم وقت کا ساتھ دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ مشترکہ سماجی قانون کے نفاذ سے معاشرتی زندگی ایسے خطوط پر استوار ہو جائے گی جو اسے بیسویں صدی کی روشن، متمدن اور ترقی یافتہ زندگی بنا نے میں معاون ثابت ہوگی ۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فرسودہ اور دقیانوسی روایات جو صدیوں پہلے اپنے اپنے خاص ماحول اور خاص حالات میں بنائے گئے تھے، اب معاشرے اور سماج کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج انسان چاند کو چھوڑ کر مریخ پر ہی نہیں بلکہ خلا میں اپنا مسکن بنانے پر سوچ بچار کررہاہے۔ حالات وہ نہیں جو آج سے ہزاروں برس پہلے تھے۔اب انسان کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہے ،روزمرہ کی ضرورتیں بدل گئی ہیں، لوگوں کے اقدار اور رہن سہن کے معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔اس ضمن میں حکومت ہندنے خواتین کے برابری کے حقوق کا مطالبہ بھی کرنا شروع کردیا کیونکہ اس کی نظرمیں یہ ہمارے معاشرے کا ایک کمزور طبقہ ہے ‘ ان کے تئیں جو ناانصافیاں پائی جاتی ہیں اس کو کامن سول کوڈ سے دور کیا جاسکے گا ۔ حکومت خواتین کو مشکلات بہتر معاشی پالیسی سے نہیں بلکہ یکسان عائلی نظام کے نفاذ کو اچھا اور مستحسن اقدام کہتی ہے ۔یقینا ہندوستان کے بعض پسماندہ ہندوؤں میں ستی کی ظالمانہ رسم اب بھی موجود ہے جس کے مطابق شوہر کے مرنے کے ساتھ اس کی بیوہ کو بھی اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ جلنا پڑتا ہے۔ ہندو مذہب میں شوہر کے مرنے کے بعد بیوی یا اس کی بیٹی متوفی کی وراثت کا حصہ دار نہیں بن سکتی ۔ فرسودہ سچ کی یہ حد ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد پنڈت نہرو نے اپنے دور اقتدار میں ہندو لاء میں جو تبدیلیاں لائی تھیں، انہیں ہندو سماج نے دل سے قبول نہیں کیا ۔ بھائی کی موجودگی میں بہن کو ترکہ میں حقدار سمجھنا ہندو معاشرے کے مزاج کے خلاف تھا اور اب بھی ہے، اسی لیے یہ قانون عملی طور پر مسترد کردیا گیا ۔ چالاک اور ہوشیار والدین اس فکر میں لگے رہتے کہ قانون کی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر لڑکیوں کا حصۂ وراثت کالعدم کردیا جائے، ایسا کرتے وقت وہ ضمیر کی کوئی الجھن محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے کہ ایسا کرنا قدیم ہندوشاستروں کی صحیح پیروی ہے۔ کامن سول کوڈ کے حامیوں کی طرف سے یہ بات بار بار دہرائی جارہی ہے اب وہ پرانے اور فرسودہ قوانین کار آمدنہیں رہ سکتے جو سینکڑوں برس پہلے کے بالکل مختلف ماحول میںاور سادہ زندگی کے سادہ مسائل کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہ اسی زمانے کے لائق تھے ۔ آج کے تمدنی دور میں بھی اگر موسویؑ یا محمدی ؐ شریعت کی پیروی کی جائے یا ہندوؤں کی صدیوں پرانی رویات کو اپنایا جائے یا پوپ کو دنیا میں نائب خدا سمجھ کر اس کے فتاویٰ کی پیروی کی جائے تو یہ ہمارے مسائل کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے مسائل اور منشاء سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے ہماری قوم کے حقیقی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ پرانے عائلی اور معاشرتی زندگی کو ان کے’’ ازکار رفتہ‘‘ شخصی قوانین کی قید و بند سے آزاد کر دیا جائے اور ان کی جگہ ایسے جدید قوانین بنا کر نافذ کر دیے جائیں جو زمانے کے نئے حقائق اور مطالبات سے ہم آہنگ ہوں اور جو ماضی کی روایات کو نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے خالص سماجی مصالح کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہوں۔ یہ الٹی کھوپڑیوں کی سوچ ہو سکتی ہے کیونکہ زمانے کی طوالت فطرت کے حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ 
[email protected] 
  (بقیہ اگلےجمعہ کو ملاحظہ فرمائیں)
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اسرائیل نے غزہ میں ساٹھ روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے پر رضامندی ظاہر کی: ٹرمپ
بین الاقوامی
اننت ناگ پولیس نے ملی ٹنسی سے متاثرہ کنبوں کے لئے ہلپ لائن قائم کی
تازہ ترین
امرناتھ یاترا: زمینی، فضائی اور ٹیکنالوجی پر مبنی سہ رُخی سیکورٹی انتظامات
تازہ ترین
ایل جی منوج سنہا نے امرناتھ یاترا کے پہلے قافلے کو جموں سے روانہ کیا
تازہ ترین

Related

اداریہ

! سگانِ شہر سے انسانوں کو بچائیں

July 1, 2025
اداریہ

کرتب بازی یا موت سے پنجہ آزمائی؟

June 30, 2025
اداریہ

! شائد یہ خواب کبھی حقیقت بن جائے

June 29, 2025
اداریہ

منشیات کیخلاف جنگ جیتنا ہی ہوگی

June 27, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?