بالآخر مرکزی سرکار کی زبان پر وہ بات آہی گئی جو وہ گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے زبان پر لانے سے کترا رہی تھی۔ حق اطلاعات قانون کے تحت دائر کی گئی ایک عرضی کے جواب میں ائرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا نے واضح کیا کہ سرینگر ائرپورٹ بین الاقوامی ائرپورٹ نہیں ہے اور صرف حج کے ایام میں ہی یہاں سے براہ راست سعودی عرب کیلئے پروازیں اڑان بھرتی ہیں۔عرضی کے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چہ سرینگر ائر پورٹ پر بین الاقوامی پروازوں کیلئے درکار تمام بنیادی ڈھانچہ دستیاب ہے تاہم مختلف ائر لائنز کی طرف سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ ائر پورٹ پر بین الاقوامی اڑانوں کیلئے مسافروں کا رش کم ہے۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس بھی راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں شہری ہوابازی وزیرنے واضح کیا تھاکہ مرکزی شہری ہوابازی وزارت کو سرینگر سے دوبئی تک پرواز چلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ بقول ان کے یہ پرواز چلانااقتصادی طور قابل عمل نہیں ہے۔ادھر حق اطلاعات قانون عرضی کے جواب میں ریاستی حکومت کے اس دعوے کی بھی ہوا نکال دی گئی کہ یہ ائرپورٹ وادی کے بلند پایہ ولی کامل شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ کے نام سے منسوب ہے ۔جواب میں کہاگیا کہ مرکزی شہری ہوا بازی وزارت کو سرینگر ائرپورٹ کو شیخ العالم انٹر نیشنل ائرپورٹ کے نام سے منسوب کرنے کی ریاستی حکومت کی سفارش ملی تھی تاہم اس سفارش سے اتفاق نہیں کیاگیا ہے۔یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ 14فروری2009کو جب سابق مرکزی ترقی پسند اتحاد کی صدر نشین اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے سرینگر بین الاقوامی طیران گاہ کاافتتاح کیا تھا تو اْس روز سرینگر دوبئی ہوائی سروس کا باضابطہ آغاز ہوا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی یہ سروس بند کی گئی تھی اور جب سے اب تک بند ہی ہے۔اس عرصہ کے دوران جہاں ریاستی ممبران پارلیمنٹ یہ مسئلہ بار بار مرکزی حکومت کے ساتھ اٹھاتے رہے وہیں ریاستی و زرائے اعلیٰ نے بھی کئی بار معاملہ مرکزی حکمرانوں کی نوٹس میں لا کر انہیں یہ پرواز پھر سے شروع کرنے کی تاکید کی تاہم عملی طور کچھ نہیں ہوا ۔2011میں سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ تاثربھی دیا تھا کہ پاکستان کشمیر سے بین الاقوامی پروازیں چلانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے کیونکہ سرینگر بین الاقوامی طیران گاہ سے روانہ ہونے والی کسی بھی پرواز کو پاکستانی فضائی حدود کا استعمال کرنا ہے جو انہیں قبول نہیں ہے۔سابق وزیراعلیٰ نے اس ضمن میں میرواعظ کو پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ بھی یہ مسئلہ اٹھانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔عین ممکن ہے کہ یہ پروازیں شروع کرنے میں مرکز کواس تکنیکی دشواری کا بھی سامنا ہو، تاہم مرکزی شہری ہوا بازی وزارت کے تازہ بیان سے یہ حقیقت سامنے آگئی کہ مرکز کو فی الوقت پاکستان کی جانب اس مسئلہ کو لیکر کسی اعتراض کا سامنا نہیں ہے بلکہ وہ خود سرینگر بین الاقوامی طیران گاہ کو فعال بنانے کے حق میں نہیں ہے۔اگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ پروازیں منافع کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہیں لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ شہری ہوابازی ہو یا ریلوے وزارت ،ان کی پالیسیوں میں منافع کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں کی استواری اور بحالی بھی مقدم درجہ رکھتی ہے اور ملک میں بھی اس وقت کئی پروازیں ایسے علاقوں کیلئے چلائی جارہی ہیں جو منافع کے لحاظ سے گوکہ قابل عمل نہیں ہیں لیکن عوامی رابطے بہتر بنانے کیلئے انہیں چلایا جارہا ہے۔گزشتہ کافی عرصہ سے کشمیر میں ان پروازوں کے حوالے سے ایسی ہوا کھڑی کردی گئی تھی کہ لگ رہا تھا مرکز اگلی صبح کو بین الاقوامی پروازوں کو ہری جھنڈی دکھانے والا ہے تاہم مرکزی وزارت شہری ہوا بازی کے تازہ ترین جواب سے ساری تمثیلی کہانیاں دری کی دری رہ گئیں اور یہ بات آئینے کی طرح صاف ہوگئی کہ سرینگر طیران گاہ کی نام کیلئے تو بین الاقوامی حیثیت رہے گی لیکن عملی طور یہ اندرون ملک پروازوں تک ہی محدود رہے گا۔یہاں یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ مذکورہ وزارت نے چند پروازوں کے آپریشن کے بعد ہی یہ کیسے اخذ کرلیا کہ یہ پروازیں نفع بخش نہیں ہیں جبکہ ابتدائی چند پروازوں میں مسافروں کی اچھی خاصی تعداد سفر کررہی تھی۔ مرکزی وزارت خارجہ کے پاس اعدادوشمار موجود ہیں کہ جموں و کشمیر کے کتنے لوگ خلیجی ممالک میں کاروبار اور نوکریاں کررہے ہیں جبکہ حج کے ایام کا رش اس کے علاوہ ہے۔سچ تو ہے کہ بیرون ممالک آباد کشمیریوں کی اکثریت خلیجی ممالک میں ہی رہائش پذیر ہے۔اس کے باوجود عوامی امنگوںاور مطالبات کے برعکس بہ یک جنبش قلم بین الاقوامی پروازوں سے انکار انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔اس صورتحال میں کشمیری یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ 2009میں سرینگر ائر پورٹ کو انٹر نیشنل ائر پورٹ کا درجہ دینا ایک سیاسی کھیل تھا کیونکہ اس وقت ملک میں پارلیمانی چنائو ہونے والے تھے اور کانگریس و نیشنل کانفرنس نے محض ووٹ بٹورنے کی خاطر اس جذباتی کارڈ کا استعمال کیا۔اگر یہی مقصود تھا تو چنائو ہوچکے ہیں اور نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد پر مشتمل نئی حکومت اب تقریباً دو برس سے برسر اقتدار ہے ، تو پھر سرینگر طیران گاہ پر نصب بین الاقوامی طیران گاہ کا بورڈ ہٹاکر وہاں دوبارہ سرینگر ڈومیسٹک ائرپورٹ کا بورڈ لگادینا مناسب ہوگا کیونکہ موجودہ حالات میں انٹر نیشنل ائرپورٹ کا بورڈ مذاق بن کررہ گیا ہے اور یہ بورڈ کشمیری عوام کو یہ یاد دلاتا رہے گا کہ ان کے ساتھ محض ووٹ سیاست کی خاطر ایک سیاسی کھیل کھیلا گیا۔وگر نہ اگر ریاستی اور مرکزی حکومتیں واقعی سرینگر ائر پورٹ کو بین الاقوامی طیران گاہ مانتی ہیں تو اس کو عملی طور بھی بین الاقوامی بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے اس طیران گاہ سے فوری طور بین الاقوامی پروازیں شروع کرنا ناگزیر ہے اور اس ضمن میں شروعات خلیجی ممالک سے کی جاسکتی ہے ۔