سرینگر//صفا کدل ہفت یاربل کی ایک عمر رسیدہ ماںکی اپنے اکلوتے لاپتہ بیٹے کی تلاش 22سال بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے اور یہ خاتون بھی اُن سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے لاپتہ لخت جگروں کی تلاش میں آنسو بہا رہی ہیں۔ ایسی خواتین کو نہ صرف سرکاروں سے شکوہ ہے بلکہ اقتدارمیں رہنے والے ایسے پولیس افسران سے بھی گلہ ہے جنہوں نے اُن کی کوئی مدد نہیں کی ۔پلاسٹک کا جوتا پہنے صفا کدل ہفت یاربل کی عمر رسیدہ خاتون جمیلہ بیگم اُن بدنصیب مائوں میں سے ایک ہے جو ہر سال انسانی حقوق کے عالمی دن پر دھرنا دیتی ہے۔اس ماں کا اکلوتا بیٹا محمدعرفان خان 1994 میںسرینگر کے کرن نگر علاقے سے لاپتہ ہو گیا تب سے اب تک اُس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا کہ اُسے زمین کھا گئی یا پھر آسمان نگل گیا۔اکلوتے بیٹے کے لاپتہ ہو جانے کے بعدپورا کنبہ بے سہارہ ہو گیا اور اب دانے دانے کا محتاج ہے۔جمیلہ بیگم کی ایک آنکھ کا آپریشن ہوا ہے جبکہ دوسری آنکھ سے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ 8سال قبل بیٹی کی شادی ہوئی تھی لیکن اُس کا بھی طلاق ہوا اور اب وہ بھی دو بچوں کے ہمرہ اپنے ماں باپ کے یہاں رہ رہی ہے۔جمیلہ بیگم نے کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھے گی۔جمیلہ بیگم کہتی ہے ’’میرا بیٹا1994میں کرن نگر ٹیوشن پڑھنے گیا تھا لیکن وہاں سے ہی غایب ہو گیاجب اُس کی تلاش شروع کی تو کرن نگر سے پتہ چلا کہ وردی میں ملبوس کچھ افراد نے تین نوجوانوں کو گرفتار کیا اگرچہ دو کی بعد میں لاشیں ملیں تاہم میرے بیٹے ،جو اُس وقت 8ویں کلاس میں پڑھتا تھا، کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا، میں اور میرے خاوند نے ہر ممکن جگہ پر اُسکو تلاش کیا، فوج سے لیکر پولیس تک انصاف کیلئے دروازے کھٹکھٹائے لیکن انصاف نہیں ملا ، ایک دن ہمیں بتایاگیا کہ شریف آباد ایچ ایم ٹی میں موجود کیمپ نے بٹہ مالو میں ایک چھاپے کے دوران تین لوگوں کو گرفتار کیا جس کی فوٹیج ٹی وی پر بھی دکھائی گئی پھر ہم نے تلاش شروع کی اور ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ زندہ ہے ،ہم اُن ٹی وی چینل والوں کے پاس بھی مدد کیلئے گئے، جنہوں نے وہ فوٹیج دکھائی تھی لیکن وہاں سے بھی ہمیں کوئی مدد نہیں ملی اور تب سے اب تک میری تلاش اپنے لحت جگر کیلئے جاری ہے اور مجھے اُمید ہے کہ وہ زندہ ہے اور ایک نہ ایک دن میرے پاس ضرور آئے گا ۔جمیلہ بیگم کا کہنا ہے کہ عرفان کے لاپتہ ہو جانے کے بعد گھر تنکوں کی طرح بکھر گیا، ماں باپ جنہیں یہ اُمید تھی کہ اُن کا بیٹا بڑا ہو کر اُن کا سہارا بنے گا لیکن ہم بدقسمت ماں باپ پچھلے 22برسوں سے اُس کو تلاش کر رہے ہیں لیکن یہ تلاش مکمل نہیں ہو رہی ہے ۔عمر رسیدہ خاتون نے کہا کہ خاوند حبیب اللہ خان دل کے عارضے میں مبتلا ہے ،میری ایک آنکھ متاثر ہے،8سال قبل بیٹی کی شادی کرائی لیکن اُس کا بھی طلاق ہو گیا ۔جمیلہ نے کہا کہ گھر کا نظام چلانے کیلئے ماں بیٹی شال بافی کا کام کرتی ہیں لیکن پچھلے 6ماہ سے یہ کام بھی بند پڑا ہے اور گھر میں کھانے کے لالے پڑگئے ہیں ۔