بجبہاڑہ+سوپور// جنگجوئوں اور فورسز کے درمیان جنوبی کشمیر کے بیاورہ بجبہاڑہ اور شمالی کشمیر کے بومئی سو پور میں علیحدہ علیحدہ معرکہ آرائیوں کے دوران حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ سے وابستہ2 عساکر جاں بحق ہوئے ۔ دونوں مقامات میں جھڑپ کی جگہوں پر مقامی لوگوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران سیکورٹی فورسز نے احتجاجی لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے اشک آور گیس کے گولوں کا استعمال کیا ہے۔ حال ہی میں عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہوئے حزب جنگجو کا نماز جنازہ5مرتبہ ادا کیا گیا۔ پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ اورفوج کی3آر آر سے وابستہ اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بدھ کی صبح سری گفوارہ کے بیاورہ نامی علاقے میں ایک میوہ باغ کے اندر گھات لگاکر بیٹھی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فورسز کو علاقے میں جنگجوئوں کی نقل و حرکت کے بارے میں مصدقہ اطلاع موصول ہوئی تھی۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے صبح7بجکر30منٹ پر گولیاں چلنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ آزادی کے نعرے بھی سنے لیکن یہ سلسلہ مختصر مدت کیلئے جاری رہا جس کے بعد پولیس کی طرف سے ایک جنگجو کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیااور پولیس اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جب فورسز اہلکار گھات لگاکر بیٹھے تھے تو وہاں سے دو جنگجوئوں کا گزر ہوا جن میں سے ایک جاں بحق جبکہ دوسرا فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔جاں بحق ہوئے جنگجو کی شناخت سمیر احمد ڈار عرف باسط ولد غلام رسول ڈار ساکن مرہامہ سنگم بجبہاڑہ کے بطور کی گئی۔پولیس ذرائع کے مطابق اس موقعہ پر2مزید جنگجو ممکنہ طور پر باغات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے،تاہم انکی تلاش شروع کی گئی ہے۔ باسط رسول اسلامک یونیورسٹی میں بی ٹیک کا طالب علم تھا لیکن وادی میں ماہ جولائی سے شروع ہوئی احتجاجی لہر کے کچھ وقت بعد وہ جنگجوئوں کی صف میں شامل ہوا اور حزب المجاہدین کیساتھ جڑ گیا ۔ پولیس کے مطابق جنگجوئوں کی صفوں میں باسط انجینئر کے نام سے معروف تھا اور حزب ضلع کمانڈر عامر وگے کا قریبی ساتھی تھا۔ ذرائع کے مطابق جاں بحق حزب جنگجو باسط رسول ڈار کا باپ ایک بینک منیجر ہے اور وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن تقریباً2ماہ قبل وہ اچانک گھر سے غائب ہوا تھا۔ اس دوران بیاورہ بجبہاڑہ میں آپریشن کے فوراًبعد کنلون اور سری گفوارہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگ سڑکوں پر آئے اور انہوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔بجبہاڑہ ، سری گفوارہ اور دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ باسط رسول کے آبائی گائوں مرہامہ اسلام آباد میں ہزاروں لوگ گھروں سے باہر آئے اور انہوں نے جنگجو کی نعش انکے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ضروری لوازمات مکمل کرنے کے بعد باسط رسول کی میت کو لواحقین کے سپرد کیا گیا۔دوپہر کے قریب جب باسط کی میت اس کے ورثاء کے سپرد کی گئی تو اس کے آبائی علاقہ مرہامہ سنگم میں کہرام مچ گیا جس دوران آناً فاناً ہزاروں مردوزن علاقے میں جمع ہوئے اور زوردار احتجاج شروع کیا۔باسط کی نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری بھیڑ کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ نماز جنازہ 5مرتبہ ادا کی گئی اور اس میںمختلف علاقوں سے آئے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔اس موقعہ پر حریت(گ) چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے لوگوں سے ٹیلی فونک خطاب بھی کیا جس کے دوران لوگوں پر زور دیا کہ وہ قربانیوں کا تحفظ کریں۔بعد میں اسلام اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعروں کی گونج میں باسط کو آبائی مقبرے میں سپرد لحد کردیا گیا۔اس کی تجہیز و تکفین کے بعد سنگم میں کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان پر تشدد جھڑپیں ہوئیں اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے شام دیر گئے تک جاری رہا۔ادھر سوپور کے مضافاتی علاقہ بمئی میں ایک جھڑپ کے دوران لشکر طیبہ سے وابستہ ایک جنگجو کمانڈر ابو بکر جاں بحق ہوا۔ پولیس نے بتایا کہ مصدقہ اطلاع ملنے پر فورسز نے بمئی سوپور کو بدھ کی صبح محاصرے میں لیکر تلاشی کارروائی شرو ع کی اور اس دوران ایک مکان میں موجود جنگجو ئوں نے فورسز پر گولی باری شروع کر دی ، جس کے جواب میں فورسز نے بھی کارروائی عمل میں لائی ۔ طرفین کے درمیان تقریباً7گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جبکہ اس دوران لوگ گھروں میں خوفزدہ ہو کر محصور رہے۔ اس دوران مقامی مسجد کے لاوڈ اسپیکروں سے اعلان کیا گیاکہ لوگ گھروں سے باہر آئیں ۔ مقامی لوگوں کے مطابق جس مکان میں جنگجو موجود تھے ، اسکے نزدیک مردوزن نے زور دار احتجاجی مظاہرے کئے لیکن اسی دوران فوج اور فورسز نے بارودی مواد کا استعمال کرکے ایک مکان کو زمین بوس کر دیا ،جس کے نتیجے میں ایک جنگجو جاں بحق ہوا۔ ایس پی سوپور ہرمیت سنگھ نے کہا کہ بمئی سوپور میں ہوئی جھڑپ کے دوران لشکر طیبہ سے وابستہ ایک جنگجو ابو بکر مارا گیا جو پاکستان کارہنے والا تھا۔ ادھر بارودی مواد کے دھماکے کے نتیجے میں ایک رہائشی مکان زمین بوس ہوگیا جبکہ دیگر کچھ مکانات اور تعمیرات کو جزوی نقصان پہنچا۔جھڑپ مکمل ہونے کے بعد بمئی سوپور میں لوگوں نے زور دار احتجاجی مظاہرے کئے اور وہ جاں بحق ہوئے جنگجو کی نعش انکے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن فورسز اور پولیس نے مارے گئے جنگجو ابو بکر کی نعش کو اپنے ساتھ لے لیا۔