سرینگر//ریاست جموں وکشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت کے حوالے سے صادر ہوئے حالیہ سپریم کورٹ فیصلے پر آئین و قانونی ماہرین نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ اس فیصلے کے ریاست پر دور س نتائج برآمد ہونگے ۔ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی زد میں یہاں کے جائیداد منتقلی وخرید و فروخت سے متعلق قوانین زد میں آئیں گے جبکہ اس فیصلے سے آئین ہند میں شامل دفعہ370اور خصوصا دفعہ35/Aکاوجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ماہرین نے سپریم کورٹ میں جموں وکشمیر سرکار کی طرف سے کیس کا کمزور دفاع کرنے پر بھی سخت حیرت کااظہار کیا ہے ۔کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے معروف وکیل اور آئینی امور پر گہری نظر رکھنے والے ایڈوکیٹ سید ریاض خاور نے کہاکہ SARFAISE ACT 2002سے متعلق سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ کا حالیہ فیصلہ کئی لحاظ سے پر از خطر ہے نیز اس کیس میں ریاستی سرکار کی طرف سے دفاع کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ،وہ اس بات کا عکاس ہے کہ یہاں کی مخلوط سرکار بھی اس فیصلے کی حامی ہے ۔ایڈوکیٹ سید خاور نے بتایا کہ بنکوں کی جانب سے قرضہ نادہندگان کی جائیداد ضبط کئے جانے سے متعلق مرکزی قانون SARFAISE ACT 2002کے ریاست جموں وکشمیر میں اطلاق پر عدالت عالیہ نے ایک تاریخی فیصلہ صادر کیا جس میں مرکزی قوانین کے ریاست پر اطلاق کیلئے حکومت اور اسمبلی کی منظوری لازمی قرار دیا ۔ایڈوکیٹ خاور نے کہاکہ بنکوں نے ریاستی عدالت عالیہ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا جہاں سے ڈویژن بنچ نے عدالت عالیہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریاستی آئین کی ایک توجیہ کی اور اسے تابع آئین ہند قرار دیا ۔سپریم کورٹ کی جانب سے مرکزی قوانین کی ریاست پر اطلاق کے بارے میں دئے گئے فیصلے پر ایڈوکیٹ سید ریاض خاور نے کہا کہ یہ خطرات سے پر ہے ۔انہوں نے کہاکہ اس فیصلے کا اثر بلواسطہ یا بلا واسطہ یہاں کے چند اہم قوانین اور آئینی شقوں پر پڑتا ہے اور جموں وکشمیر کی آئینی خصوصیت کو شدید زک پہنچنے کااحتمال ہے ۔ایڈوکیٹ خاور کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین ہند میں شامل دفعہ370اور دفعہ 35/Aپر اثر انداز ہونے کے علاوہ یہاں کے LAND ALIEANATION ACTکو متاثر کرے گا ۔انہوں نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا کہ بنک کسی جائیداد پر قبضہ کرنے کے بعد اسے بیرون ریاستی باشندے کو فروخت نہیں کرسکتے ہیں ۔ایڈوکیٹ خاور کے مطابق آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے مرکزی سطح کے قانون کے ریاست پر براہ راست نفاذ کی بات کہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو اس قانونی اڑچن کو دور کرکے یہاں کے آئینی تشخص کو ختم کیا جائے گا۔قانونی ماہرین کے مطابق اس اہم معاملے میں سپریم کورٹ کا5رکنی آئینی بنچ سماعت کرنا چاہئے تھا نیز حکومت جموں وکشمیر کو ریاست کی آئینی و قانونی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین سے صلاح و مشورہ کرکے کسی ماہر کی خدمات حاصل کرنی چاہئے تھی جس سے مخلوط حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اس وقت جو طرز عمل سامنے آیا اس سے 370اور35Aدفعات و دیگر خصوصی آئینی شقوں کے تحفظ کے معاملے میں حکومت کی نیت مشکوک لگتی ہے ۔قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ریاستی حکومت اب بھی سنجیدہ ہے تو اسے اس فیصلے کو اعلیٰ بنچوں میں چیلینج کرنا چاہئے اور اس کیلئے ریاست کی آئینی و قانونی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہئے ۔انہوں نے کہاکہ پرائیویٹ پارٹیاں بھی سپریم کورٹ میں جائزہ پٹیشن دائر کرسکتی ہیں لیکن یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں پہل کرے ۔