سرینگر/بلال فرقانی/مزاحمتی قیادت نے مغربی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کو اقامتی اسناد کی فراہمی کو آر ایس ایس کے’’اکھنڈ بھارت‘‘ ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دانستہ طور پر جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اورمتنازعہ حیثیت اور ہیئت کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس ضمن میں میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے احتجاجی جلوسوں کی قیادت کی۔نماز جمعہ کے بعد حریت(ع) چیئر مین میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں جلوس نکالا گیا۔جلوس کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈس اٹھا رکھے تھے جن پر شرنارتھیوں کو اسناد جاری کرنے کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے درج تھے۔اس موقعہ پر میرواعظ عمر فاروق نے جامع مسجد کی صحن میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے اور جموںوکشمیر کی متنازعہ حیثیت اور ہیئت پر اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اصل میں ان حکمرانوں کو ان رفیوجیوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ صرف جموںوکشمیر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور اسکی متنازعہ حیثیت اور ہیئت کو بگاڑنے کے آر ایس ای اور بی جے پی کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کیلئے یہ سب عمل انجام دیا جارہا ہے۔میر واعظ عمر نے مین اسٹریم جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بنیاد پرست ہندئو شدت پسند جماعت آر ایس ایس اور بھاجپا نے کبھی بھی اپنے کشمیر دشمن ایجنڈے کو خفیہ نہیں رکھا بلکہ1947 سے ہی اپنے کشمیر دشمنی سے عبارت ایجنڈے کا پرچار کرتے رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس بار ان کے خاکوں میں رنگ بھرنے کیلئے یہاں کا حکمران ٹولہ استعمال ہو رہا ہے۔حریت(ع) چیئرمین نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ ریاست کے حکمران کس منہ سے مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر برتائو کی وکالت کررہے ہیں جبکہ یہ حکمران یہاں کے ہزاروں نہتے لوگوں کو قتل کرنے اور ان پر ظلم و تشدد کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں‘‘۔انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش چاہے وہ بذریعہ انتظامیہ، قانون سازیہ یا پھر عدلیہ کے ذریعہ ہو جس کا مقصد جموںوکشمیر پر بھارتی اداروں کی مکمل بالادستی قائم کرنا ہو،یہاں کے عوام کیلئے ناقابل قبول ہے ۔لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک کی قیادت میں ایک جلوس نکالا گیا ، جس کے دوران انہیں حراست میں لیا گیا۔یاسین ملک جو گرفتاری سے بچنے کیلئے کل دوپہر سے ہی روپوش ہوگئے تھے ، سرائے بالا پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں انہوں نے درگاہ غوثیہ میں نماز ادا کرنے کے بعد جموں کشمیر میں نافذ اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کرنے، یہاں کی مسلم اکثریتی کردار کو مسخ کرکے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور آبادی کے تناسب کو بگاڑ کو غیر قانونی قبضے کو دوام بخشنے کی سازشوں کے خلاف احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔ اس پروقار جلوس میں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شمولیت کی وہیں پر زندگی کے سبھی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں ،ائمہ اور علماء نے بھی اس میں بھرپور شرکت کی۔ جلوس جب امیرا کدل کے نزدیک پہنچا تو وہاں پولیس اور فورسز نے پہلے سے ہی خار دار تار اور رکاوٹیں کھڑا کیں تھیں۔پولیس نے جلوس کا راستہ روک لیا اور یاسین ملک کے علاوہ شیخ عبدالرشید، عاشق حسین وانی، علی محمد اژھن اور بشارت احمد بٹ کو گرفتار کرلیا ۔اس سے قبل لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرنٹ چیئر مین نے کہا کہ کشمیری عوام پشتینی باشندے کے قانون،ریاست کی واحدانیت،مسلم اکثریتی شبیہ اور آبادی کے تناسب کی حفاظت کرنے سے اپنا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرینگے جبکہ اس بات کا بھی اعلان کیا کہ جو کوئی بھی حکمران یا سیاست دان اس کو چھڑنے کی کوشش کرئے گا اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پرے گا۔ملک نے مغربی پاستان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں میں اقامتی اسناد کی تقسیم کاری،’ مالیاتی اثاثوں کی امینت سازی و تعمیر نو اور سلامتی مفادات کے نفاذ‘‘ قانون Sarfeasi act سے متعلق عدالت فیصلے اور غیر ریاستی بنکوں کو جموں کشمیر میں جائداد پر قبضے کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے حربوں سے بھارت کشمیر میں اپنے قبضے کو مظبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے حکومت ہند اور انکے مقامی حواری ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح کشمیری عوام کے مفادات ،احساسات اور جذبات کو زخ پہنچایا جائے اور اس حوالے سے سازشوں کے جال بننے جاتے ہیں۔ملک نے کہا کہ پی ڈی پی ی کی سربراہی والی حکومت نے اپنے رنگ دکھانا شروع کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں منصوبہ بند طریقے سے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا آر ایس،جن سنگھ اور بی جے پی کی دیرینہ پالسیوں کا حصہ ہے اور وہ اب ان خاکوں میں رنگ بھرنا چاہتے ہیں۔