سرینگر// مسرت عالم بٹ پر نافذ کئے گئے سیفٹی ایکٹ کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ نے مسلم لیگ سربراہ اور سینئر حریت لیڈر کی فوری رہائی کے احکامات صادر کئے ہیں ۔قانونی نکات پر مدلل بحث کے بعد عدالت عالیہ نے مسرت عالم پر نافذ کئے گئے سیفٹی ایکٹ کو کالعدم قرار دیا ۔جسٹس مظفر حسین عطار پر مشتمل سنگل بنچ نے سیفٹی ایکٹ کیخلاف دائر عرضی پر اپنا فیصلہ صادر کیا ۔کیس کی پیروی معروف قانون دان اور بار صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کررہے تھے ۔ایڈوکیٹ میاں قیوم نے عدالت عالیہ کے سامنے مسرت عالم پر نافذ کئے گئے سیفٹی ایکٹ کے قانونی خامیوں کو ابھارا اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ۔انہوں نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ان کے مئوکل پر سیفٹی ایکٹ عائد کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کے علاوہ ریاستی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ضلع مجسٹریٹ بارہمولہ نے مسرت عالم بٹ پر سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کیلئے جن الزامات کو بنیاد بنایا ہے ،ان الزامات کے تحت وہ پہلے ہی قید کاٹ چکے ہیں جبکہ عدالت نے ان الزامات کو پہلے ہی خارج کرتے ہوئے سابقہ سیفٹی ایکٹ کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن سابقہ احکامات کو خاطر میں لائے بغیر متعلقہ حکام دوبارہ انہی الزامات کے تحت مسرت عالم پر نیا سیفٹی ایکٹ عائد کررہے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سرکار اور انتظامیہ ان کے مئوکل کو بلا وجہ قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کرکے ان کے حق آزادی کو سلب کررہے ہیں ۔ایڈوکیٹ میاں قیوم نے عدالت عالیہ اور سپریم کورٹ کی متعدد ہدایات و فیصلہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے مئوکل مسرت عالم پر نافذ کئے گئے سیفٹی ایکٹ کو غیر قانونی قرار دیا ۔اس موقعے پر سرکاری وکلاء نے بھی مسرت عالم پر عائد کئے گئے سیفٹی ایکٹ کے دفاع میں دلال پیش کئے تاہم جسٹس موصوف نے ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے مسرت عالم پر عائد سیفٹی ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر ان کی فوری رہائی کا حکم صادر کیا ۔اپنے فیصلے کے دوران تاثرات بیان کرتے ہوئے جسٹس موصوف نے کہاکہ’’ جمہوری سماج نہ صرف اسکی قسمیں کھاتے اور حلف لیتے ہیں بلکہ جمہوری اقدار کے تحت ہی زندگی بسر کرتے ہیں۔حتی کہ انتہائی اکسائے جانے پر بھی ،قانون ارض کا ہی نفاذ لازمی ہے ۔قوانین یکساںمنفردمعیار اپناتے ہیں حتیٰ کہ بسا اوقات ،ان کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے ،جو اسے توڑتے ہیں جس سے وہ دیگر انسانوں سے بھی بہتر بن جاتے ہیں‘‘۔جسٹس عطار نے مزید کہاکہ ’’ یہ سچ ہے کہ قوانین توڑے جانے سے سماج کے ممبران ،جن کے فائدے کیلئے یہ قوانین وضع کئے جاتے ہیں ،ہی بری طرح متاثر ہوتے ہیں ،اور جب کوئی شخص جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔اسے عدالت کے ذریعے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر یہ مقدمہ صحیح انداز سے مکمل ہوجاتا ہے تو جرم ثابت ہونے پر اسے قانون کے تحت ہی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔عدالت عالیہ نے بحث کو سمیٹتے ہوئے قانونی نکات کا حوالہ دیتے ہوئے مسرت عالم پر عائد کئے گئے سیفٹی ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر اسے کالعدم قرار دیا۔