سرینگر// سرفیسی ایکٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد دلی عدالت عالیہ میں ریاست جموں وکشمیر کے آئینی معاملات سے متعلق مفاد عامہ عرضی دائر کرنے کے بارے میں قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس سیاسی عمل کا تسلسل ہے ،جو ریاست کے آئینی تخصص کو بتدریج ختم کرنے یا کم کرنے کی سمت ایک عرصے سے جاری ہے ۔آئینی و قانونی معاملات میں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں کا راستہ اختیار کرنا ایک منصوبے کا حصہ ہے جس میں ریاستی و مرکزی سرکاریں حصہ دار ہوسکتی ہیں ۔واضح رہے کہ دلی کی عدالت عالیہ میں ریاست جموں وکشمیر کی آئینی تخصیص کو پھر سے چیلینج کیا گیا ۔اس بار دفعہ370 کی ذیلی شق سب سیکشن1کلاس D کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو حاصل امتیاز ،کو چیلینج کرتے ہوئے کہا گیا ہے اگر پارلیمنٹ کی جانب سے کسی بھی آئین میں ترمیم کا اطلاق سبھی ریاستوں پر ہوگا تو ریاست جموں وکشمیر کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے ۔یہ پارلیمنٹ کے اختیارات پر ’’جبری تجاوز‘‘ کے مترادف ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیاجانا چاہئے ۔ماہرین قانون نے دلی عدالت عالیہ میں ایک وکیل کی جانب سے دائر اس عرضی کو تیکنیکی لحاظ سے انتہائی کمزور قرار دیتے ہوئے اسے سیاسی مقاصد کی حامل عرضی قرار دیا ہے ۔آئینی امور پر گہری بصیرت رکھنے والے ایڈوکیٹ سید ریاض خاور نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہاکہ اب ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوگیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو حاصل آئینی تخصص کو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ذریعے زیر بحث لانے کے بجائے اب عدالتوں کا روٹ اختیار کیا گیا ہے ۔انہوں نے ماضی قریب میں بیرونی عدالتوں اور سپریم کورٹ میں اس حوالے سے دائر کی گئی متعدد عرضیوں کا حوالہ دے کر کہا کہ دفعہ370اور اس کے قرب و جوار کے آئینی قواعد وضوابط کو چیلینج کیا گیا ہے ۔بعض پر عدالتوں کی جانب سے فیصلے صادر ہوئے اور بعض مقدمے زیر سماعت ہیں ۔ایڈوکیٹ خاور نے گذشتہ روز دلی عدالت عالیہ میں دائر کی گئی عرضی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ قانونی لحاظ سے یہ بات ہی عبث ہے کہ ،آئینی امور سے متعلق اشکالات کو عدالتوں میں پہنچایا جائے ۔انہوں نے کہاکہ اگر آئین کے ڈھانچے سے متعلق بنیادی نظریات ( Basic structure theory) سے متصادم اگر کوئی قانون پارلیمنٹ میں وضع ہوتا ہے ،تو اسکے خلاف عدالتوں میں چیلینج کیا جاسکتا ہے لیکن جو باتیں آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم نہ ہوں ،ان کے خلاف عدالتوں میں نہیں جایا جاسکتا ۔جہاں تک آئین کی دفعہ370سب سیکشن 1کلاس ڈی کا معاملہ ہے ،تو اس میں یہ بات واضح ہے کہ دفعہ370کی حرمت کو برقرار رکھنے کیلئے آئینی ترامیم سے متعلق ایکٹ کا اطلاق صدارتی حکمنامے کے بغیر ریاست جموں وکشمیر پر لاگو نہیں ہوسکتا ۔ایڈوکیٹ خاور کے مطابق 15اگست 1947کو بھارت ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا جبکہ پاکستان اس سے ایک روز قبل 14اگست1947کو قائم ہوا۔ایسے میں جموں وکشمیر اس موقعے پر ایک آزاد مملکت تھی جسے بعد میں 27اکتوبر 1947کو بھارت کیساتھ جوڑا گیا ۔وجوہات اور تاریخی معاملات سے قطع نظر جس وقت 27اکتوبر کو ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑا گیا تو اس وقت کے قانونی ماہرین نے جموں وکشمیرریاست کا آئینی و قانونی سطح پر الحاق کیلئے 370وضع کیا اور اسکے ساتھ ہی 35Aاور دیگردفعات کو بھی آئین ہند میں جگہ دی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاستی عوام کے ساتھ کسی خاص رحمدلانہ طرز عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ بھارت کی اس وقت کے حالات میں اپنی مجبوریاں تھیں ،جو ریاست جموں وکشمیر کو آئینی تخصیص دینا لازم بن گیا ۔اس وقت ریاست جموں وکشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں جا پہنچا تھا جبکہ بٹوارے کے عینی گواہ لاڈ مائونٹ بیٹن نے بھی جموں وکشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے رائے شماری کی شرط لگا دی تھی ۔انہوں نے کہاکہ ریاست جموں وکشمیر کے ہائی کورٹ نے اس معاملے میں پہلے ہی ایک واضح فیصلہ صادر کردیا ہے لہٰذا اگر کوئی اس بارے میں مزید عدالتی چارہ جوئی چاہتا ہے تو اسکے پاس سپریم کورٹ کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ایڈوکیٹ خاور کے مطابق دلی ہائی کورٹ میں اس عرضی پر سماعت کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ۔ایڈوکیٹ سید ریاض خاور کے مطابق 370کے آس پاس اور اس سے مربوط آئینی شقوں اور دفعات کے خلاف عدالتوں میں مفاد عامہ عرضیاں درج کرنا تشہری عمل ہے اور قانونی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے معاملات کو وہ کس طرح سنجیدگی سے لیتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ سرفیسی ایکٹ کے دفاع سے متعلق اختیار کی گئی غیر سنجیدہ پالیسی سے سرکار کی شبیہ پہلے ہی خراب ہوگئی ہے اور اب پی ڈی پی ۔بی جے پی سرکار پر لازم ہے کہ وہ ان حساس معاملات میں اپنی پالیسی واضح کرے ۔