سرینگر//ایجی ٹیشن کی چھٹیاں اورسرمائی تعطیلات کے بعد یکم مارچ کو وادی اورجموں خطہ کے تحت آنے والے سبھی سرکاری ونجی اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاںبحال ہونے سے سکولوں کی رونق لوٹ آئی ۔تاہم سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میںحاضری کی شرح زیادہ رہی جبکہ اس دوران وردیوں میں ملبوس ننھے منے بچوں کی گہما گہمی شدید بارشوں کے باعث بہت ہی قلیل رہی۔ بدھ کو وادی بھر میں تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے کھل گئے۔وادی کے تمام علاقوں میں صبح سویرے رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس بچوں کو کتابوںکے بستے اٹھائے ہوئے اسکولوں کا رخ کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ جس سے لگ رہا تھا کہ شہر و دیہات میں جولائی2016کے بعد پہلی بار رونق واپس لوٹ آئی ہو ۔مطلع ابر آلود رہنے اور بارشوں کے باوجود صبح سے ہی سرینگر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں طلباء و طالبات کا رش اگرچہ قلیل رہا تاہم ماحول بڑا دلفریب منظر پیش کررہا تھاجبکہ مختلف مقامات پر بھی والدین اور سکولی طلبہ وطالبات کی بھاری بھیڑنظر آئی جو اسکولوں کی گاڑیوں کا انتظار کررہے تھے۔اسکول کھلنے کے بعد تعلیمی اداروں کے باہر بھی بارشوں کے سبب طلباء وطالبات کی خاصی گہما گہمی نظر آئی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل تقریباً 8ماہ بعد سکول مکمل طور پر کھل گئے ہیں۔8جولائی2016کو عوامی ایجی ٹیشن شروع ہونے کے بعد ہڑتال بدستور جاری رہی جس کی وجہ سے طلبا ء وطالبات امتحانوں میں شریک نہیں ہوسکے یوں انکی ماس پرموشن کی گئی اور اسی کیساتھ سرمائی چھٹیاں تین ماہ کیلئے ہوئیں۔سکول کھلنے کے موقعہ پر بچوں میں زیادہ خوشی نظر آئی۔کئی بچوں کا نیا ایڈمشن ہوا ہے جو زیادہ پر جوش نظر آرہے تھے۔کئی والدین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ اس امید پر بچوں کو سکول بھیج رہے ہیں کہ امسال وہ دوبارہ نامساعد حالات میں نہ پھنس جائیں۔کیونکہ پچھلے سال بچوں کی پڑھائی کا نظام مفلوج ہوا جس کا اثر بچوں پر پڑا۔والدین یہ شکایت بھی کررہے تھے کہ سکولوں کے فیس میں بے تحاشہ اضافہ بھی کیا گیا ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں پڑھائی برائے نام ہوتی ہے۔والدین نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ انکے بچے امسال سکولوں کی زینت بنے رہیں کیونکہ تعلیم چھوٹنے سے وہ علم کے نور سے بہرہ مند نہیں ہونگے اور ان میں تعلیم کے لحاظ سے کمزوری بھی رہے گی جو انکے مستقبل کیلئے ٹھیک نہیں۔