سرینگر//24گھنٹے موت کیساتھ کھیلنے والے محکمہ بجلی کے عارضی ملازمین کو جہاں اپنے ہی محکمہ نے بے سروپا چھوڑ دیا ہے وہیں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر سال اوسطاً قریب 15ملازمین یا تو کرنٹ لگنے سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا پھر اپاہچ بن کر عمر بھر کیلئے گھر والوں کیلئے بوجھ بن جاتے ہیں۔محکمہ پی ڈی ڈی میں دوران ڈیوٹی ڈیلی ویجروں اور ملازمین کی موت کا سلسلہ دراز تر ہو تا جارہا ہے ۔یہ واحد محکمہ ہے جس کے ملازمین موت کیساتھ 24گھنٹے کھیلتے رہتے ہیں۔جس محکمہ کیلئے یہ ملازمین اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام کرتے ہیں یہی محکمہ انکے لئے جان لیوا بھی بنتا ہے۔محکمہ پی ڈی ڈی میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سال1994سے لیکر اب تک محکمہ بجلی کے160 ملازم لقمہ اجل بن گئے ہیں جبکہ 75کے قریب لوگ اپاہچ بن چکے ہیں ۔اسی طرح ابھی تک 20واقعات میں نیڈبیسڈ ملازمین متاثر ہوئے ۔جبکہ پچھلے 2ماہ کے دوران ترسیلی لائینوں کی مرمت کے دوران6ملازمین کی موت واقع ہوئی ہے اور 3 جسمانی طور پر نا خیز بنے ہیںلیکن المیہ یہ ہے کہ محکمہ اور عوام کی خدمت میں جان دینے والے ان ڈیلی ویجروں اور نیڈ بیسڈ اہلکاروں کی باز آباد کاری کیلئے حکومت کے پاس نہ کوئی نظام اور نہ ہی کوئی منصوبہ ہے۔ذرائع کے مطابق 26اگست 1981میں سرکار نے ایک ایس آر او نکالا۔ ایس آر او میں لکھا گیا ہے ’’ محکمہ میں اگر کسی نے 5سے7برس تک کام کیا ہو اُس کو باقاعدہ بنایا جائے گا اور اگر محکمہ میں کوئی ڈیلی ویجر یا پھر نیڈ بیسڈملازم کام نہیں کرتا ہو تو اس صورت میں ہی نئی بھرتی عمل میں لائی جاسکتی ہے‘‘ ۔اسی طرح سرکار نے سال2011میں جموں وکشمیر الیکٹرسٹی ایکٹ کے تحت ایک نیا قانون عمل میں لایا جسمیں واضح طور پر کہا گیا ہے ’’ اگر کسی ڈیلی ویجر ملازم کی موت دوران ڈیوٹی واقع ہوتی ہے تو اُس صورت میں اُس کو 3لاکھ روپے دئے جائیں گے اور اگر زخمی یا پھر جسمانی طور ناکارہ بنتا ہے تو اس صورت میں اُسے ایک لاکھ روپے دئے جائیں گے‘‘۔ قانون میں یہ بھی بتایا گیا ہے ’’ اگر دوران ڈیوٹی کوئی مستقل ملازم لقمہ اجل بن جاتا ہے تو اُسے اس صورت میں پانچ لاکھ روپے اور زخمی ہونے والے کو ایک لاکھ روپے ایکس گریشیا ریلیف جبکہ ایس آر او 43کے تحت نوکری دینے کا بھی یقین دلایا گیا ہے‘‘۔ ذرائع نے بتایا کہ صرف پانچ فیصد مستقل ملازم کو اُن کا حق ملتا ہے جبکہ نیڈ بیسڈ اور ڈیلی ویجر ملازمین کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا ۔ ذرائع نے بتایا کہ ایک ڈیلی ویجر کو دن میں 125روپے دیئے جاتے ہیں اور یہ ملازم 24گھنٹے موت کے ساتھ کھیلتا ہے اور قانون کے مطابق جو پیسہ انہیں ملنا تھا وہ بھی نہیں مل رہا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ محکمہ بجلی میں اس وقت 23ہزار ملازم کام کررہے ہیںجن میں نیڈ بیسڈ ، ڈیلی ویجر یا پھر مستقل ملازم شامل ہیںاور ان کی موت کے ساتھ ہر وقت جنگ ہوتی ہے ۔الیکٹرک ایمپلائز یونین کے صدر عبدالسلام راجپوری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہر سال محکمہ بجلی کے 15ملازم لقمہ اجل بن جاتے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے ملازمین کیلئے سرکار کے پاس کوئی بھی پالیسی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کی ڈیوٹی کے دوران موت کے بعد انکے کنبوں کو مراعات اور دیگر محکمانہ فوائد حاصل کرنے میں دفتروں کا طواف کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے محکمے کے افسران بالاپر ان کیسوں کو سرد خانے کی نذر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر زخمی یا فوت ہوئے ملازمین کے مراعات واگزار کرنے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایس آر او43 کے کیس بھی کئی دفتروں میں دھول چاٹ رہے ہیں۔راجپوری نے کہا کہ ہم نے ایسے ملازمین کی مشکلات اور ان کیلئے ایک پالیسی بنانے سے متعلق سرکار کو کئی بار آگاہ کیا لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی اقدمات نہیں کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ٹریننگ پروگرام کی رو سے یہ پالیسی بنی ہے کہ محکمہ کے ہر ایک ملازم کو ایک ہفتہ ٹریننگ دی جائے اور اس کیلئے محکمہ کو پیسہ بھی ملتا ہے لیکن ان تربیتی پروگراموں پر ابھی تک کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا گیاہے ۔