ہم سب جس سماج میں رہ رہے ہیں، اس سماج کو مختلف قسم کے رسوم ارو رواجوں نے یرغمال بنائے رکھا ہے۔ ہماری روز مرہ زندگی کو مختلف طریقوں سے متاثر کرنے والے اقدار اور عوامل میں رسم و رواج سر فہرست ہیں۔ رسم و رواج کسی معاشرے کے اخلاق ارو تربیت کے معیار کا تعین کرنے والے بنیادی اصولوں کو تشکیل دیتے ہیں۔آج جہاں بھی نظر جاتی ہے غیر اسلامی رسم ورواج عروج پر ہیں۔ہمارے معاشرے میں مذہب اور معاشرت کے نام پر فضول اور غیر شرعی رسم ورواج فروغ پا چکے ہیں۔آج اچھے خاصے لوگ مختلف رسوم کے بندھنوں میں جھکڑگئے ہیں۔وہ ان بندھنوں کو توڑنا اپنے لئے مضر اور نقصان دہ سمجھتے ہیں۔بعض لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اخلاقی فقدان کے باعث یا بامرِ مجبوری رسم ورواج کے بندھوں میں اس طرح جھکڑ گئے ہیں کہ ان سے خلاصی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں۔شادی ، رہنے، سہنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، مرنے جینے، سیر سپاٹے، خوشی غمی وغیرہ غرض زندگی کے ہر پہلوں میں رسم ورواج نے جنم لیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے رسوم کیوں اور کیسے جنم لیتے ہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ آج انسان سائنس کی ترقی سے کافی آگے بڑھ چکا ہے اور ذہنی طور پر بھی باشعور اور بالغ نظر ہو چکا ہے لیکن انسان کی فطرت یہ ہے کہ اپنی شان، عزت اور خودنمائی کو قائم رکھنے کے لئے خود کو مختلف سماجی بندھنوں میں جھکڑ لیتا ہے۔ یہ سماجی بندھن دھیرے دھیرے معاشرے میں پھیل جاتے ہیں اور پورا معاشرہ ان سماجی بندھنوں میں جھکڑ جاتا ہے۔اس طرح یہ سماجی بندھن مختلف قسم کے رسوم و رواجات کی صورت میں معاشرے کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں جن سے چھٹکارا پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جارہا ہے، اس سے نہ صرف ذاتی یا خاندانی نقصان ہوتا ہے بلکہ ریاست وقوم کا نقصان ہوتا ہے۔خوشی کی تقریبات وتفریحات کا اہتمام کرنا، خوشی منانا اور غم والم اور ماتمی تقریبات مذہبی طور جائز طریقے سے منانا انسانی فطرت ہے، ضرورت بھی ہے بلکہ معاشرتی زندگی کا حصہ بھی ہیں مگر خوشی یا شادی بیاہ وغیرہ اور مرگ و سوگ کے نام پر ایسی غیر شرعی اور ناجائز رسوم کو پروان چڑھانا کہ انہیں اپنانے سے انسان کی ذاتی وگھر یلو بلکہ سماجی زندگی عدم توازن یا نا برابری کی شکار ہو جائے، یہ کسی بھی طور پسندیدہ و لائق تحسین بات نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے فضول اور غیر شرعی رسم ورواج فروغ پا چکے ہیں جن پر بلاوجہ اور شرعی دلیل کے کافی سرمایہ اور وقت ضائع ہوتا ہے اور بہت ساری معاشرتی دشواریاں اورمسائل جنم لے رہی ہیں۔
شادی بیاہ اگرچہ ایک اہم دینی و سماجی معاملہ یا فریضہ ہے مگر فضول رسم ورواج نے اسے ہمارے لئے ایک ایسا پیچیدہ وگرانبار مسئلہ بنادیا ہے کہ ایک آدمی اس کے جنجھٹ میں پھنس کر بعد میں ساری زندگی قرضے کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے ۔ یوں اس خوشگوار فریضے کو ناقابل برداشت بلکہ فضولیات کا گورکھ دھندا بوجھ بنادیا گیا ہے۔شادی بیاہ کی خرچیلی تقریبات کا کئی دنوں تک جاری رہنا، لاتعداد مہمانوں کو مدعو کرنا، قیمتی زیورات و ملبوسات تیار کروانا، جہیز دینا یا لینا، ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کرکے شادی کے پنڈال اور خیموں کی آرائش کرنا، بجلی کے قمقمے چمکانا، قسم قسم کے لذیز پکوان تیار کروانا، دست بوسی اور گفٹس کے نام پر خرچہ جات کی چکی چلنا غریب اور متوسط طبقہ کے لئے کسی سزائے سخت سے کم نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ایسے رواجات پائے جاتے ہیں کہ سماج میں ان کے ساتھ زندہ رہنا دشوار تر اور وبال جان بن گئے ہیں۔صاحب ثروت لوگ اپنی حیثیت کی نمائش کے لئے اپنی لڑکیوں کو قیمتی جہیز دیتے ہیں جن کی دیکھا دیکھی متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے مشکل میںپڑ کر جہیز کا بندوبست کرتے ہیں۔ نتیجتاً اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شادی بیاہ کے قرضوں کی ادائیگی میں گزار دیتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جہیز کا لین دین اب ایسا ظالم رواج بن گیا ہے کہ دونوں اطراف سے مطلوبہ جہیزی اشیاء کی فہرست کا تبادلہ کیا جاتا ہے، اور جوبے بس یا غریب لوگ اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث جہیز کا مطالبہ پورا نہیں کرسکیں ان کی بیٹیاں تمام تر سلیقے، تعلیم ،صلاحیت، اور حسن و جمال کے باوجود والدین کے گھر میں بیٹھی بیٹھی شادی کی عمر پار کر جاتی ہیں۔ اب تو جہیز جیسی رسم بد سے شادی بیاہ ایک اچھی خاصی تجارت میںبدل گئی ہے۔ظاہر ہے کہ اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے جہیز ایک لعنت ہے لیکن پھر بھی اس لالچی معاشرے میں اس کا لین دین بند نہیں ہو جاتا ہے۔شادی بیاہ کے ان رسوم بد اور بدعات کے نتیجے میں خاندانوں میں جھگڑے تنازعے ، خود کشیاں بلکہ قتل ناحق تک کے واقعات پیش آتے رہتے ہیںجو آئے روز اخبارات اور سوشل میڈیا کی سرخیاں بنتے ہیں، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔
آج کل غم و ماتم کی رسومات بھی دن بہ دن بد ترین شکل اختیار کر رہی ہیں۔موت و حیات انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔گائوں گائوں، نگر نگر اب میت کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کر نے یا ہمدردی جتانے کی بُری رسومات ہمارے سماج میں رواج پا چکی ہیںلیکن علماء کرام اس پر نہ کسی کو ٹوکتے ہیں اور نہ سماجی اصلاح کی کہیں سے کوئی کمزور آواز بھی سنائی دیتی ہے ۔ ہم میں سے اکثر لوگ لوگ خود ان بُری رسومات کو جنم دیتے ہیں۔ بے شک علماء کرام کی طرف سے کبھی کبھار مقامی اخبارات میں اس بارے میں عوام الناس کے لئے دینی ہدایات مشتہر ہوتی ہیں کہ فوتگی کی مناسبت سے شرعی طور طریقہ کیا ہے، مگر ہم پر اس وعظ ونصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ایک مشہور حدیث شریف بروایت حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزوں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔لہٰذا جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ کررہا ،اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کر لیا۔(متفق علیہ)۔واضح رہے کہ مشتبہ چیزوں کے معاملے میں علماء دین سے رابطہ کرکے ہی رہنمائی مل سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں اب تو صاحب ِ تعزیت کے گھر میں باضابطہ چہارم چہلم، پندرھواں وغیرہ میں رشتہ داروں اور دوست واحباب کے لئے دعوتیں ہوتی ہیں جب کہ اُن کی طرف سے میت کے لواحقین کے لیے بے تحاشہ پھل، میوے، مشروبات، روٹی بلکہ نقدی کی صورت میں تحفے لائے جاتے ہیں۔یہ خود نمائی اور دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔مزید برآں اگر کوئی دین دار آدمی نماز جنازہ پر صرف تین دنوں تک جائز تعزیت کرنے کا باضابطہ اعلان کرتا ہے پھر بھی جہالت کی حد یہ ہوتی ہے کہ چہارم کے بعد بھی رشتہ دار وغیرہ ہفتوں تک تعزیت کے لئے صاحب ِ تعزیت کے یہاں آتے جاتے ہیں اور لواحقین کے لئے آسانیوں کی بجائے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس کاشریعت مطہرہ میں نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی اخلاقی طور یہ جائز ہے۔
اختصار کے ساتھ اگر آج کل کی فیشن پرستی پر بات کی جائے تو یہ سراسر تکلیف دہ اور دکھاوے کے مرقعے ہیں۔ ایک جانب مغرب کی ظاہری نقل جس کا تمام تر دارومدار عریانیت، بناوٹ اورخود آرائی پر ہے، نے معاشرے کو دوزخ کا نمونہ بنایا ہے۔ دوسری جانب ہم دینی شعائر کو ترک کر کے اپنے لئے اذیت ناک مسائل کے جنم داتا بن چکے ہیں ۔ ان دو چیزوں سے ہماری سادگی اور حیا کا بالکل دیوالیہ نکل رہا ہے۔ ہم میں نہ بڑوں کا حترام رہا ہے اورنہ ہی چھوٹوں سے شفقت رہی ہے۔ نئے نئے فیشن پر نوجوان جان چھڑک رہے ہیں۔سڑکوں پر دیدہ دانستہ فتنہ سا مانیاں رواں دواںہوتی ہیں۔پوشاکیں ایسی ترویج پارہی ہیں جو جسم کو ستر بخشنے کے بجائے عریاں ہی رکھتی ہیں۔موبائیل کا جنون اس حد تک ہے کہ چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں یہ کھلونے کی طرح چوبیس گھنٹے رہتا ہے۔ہمارا دین (اسلام) فلاح ہی فلاح ہے۔اگر ہم دین اسلام کے ضابطوں اور اصولوں پر زندگی بسر کریں اور سیرت رسول مقبول ﷺ کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمیں کسی بھی مقام پر کوئی بھی مشکل پیش نہ آئے گی بلکہ انفرادی و سماجی زندگی بڑی سہل، آسان اور کامیاب ثابت ہو گی ۔ایسا کرکے ہی ہم پورے
معاشرے بلکہ عالم انسانیت کے لئے خوشی اور امید کا پیغام بن سکتے ہیں۔