جموں//پارلیمنٹ کی دو نشستوں کے لئے ہونے جا رہے ضمنی انتخابات کیلئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے مابین سمجھوتہ لگ بھگ طے ہے جس کے مطابق دونوں پارٹیاں ایک ایک نشست پر مشترکہ امیدوا ر کھڑا کریں گی تاہم حال ہی میں پی ڈی پی سے مستعفی ہو کر کانگریس کا دامن تھامنے والے طارق حمید قرہ امیدوار نہیں ہوں گے۔ پردیش کانگریس صدر غلام احمد میر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ’ہم نے اس معاملہ پر مفصل غور و خوض کرنے کے بعد رپورٹ اعلیٰ کمان کو بھیج دی ہے اور آئندہ ایک دو روز میں فیصلہ متوقع ہے ‘‘۔کانگریس ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ سیٹ شیئرنگ فارمولہ کے تحت الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ، اننت ناگ نشست کانگریس جب کہ سرینگر نیشنل کانفرنس کو دی جائے گی۔کانگریس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جنوبی کشمیر میں دو حلقوں میں کامیابی درج کی تھی جب کہ شمالی کشمیر میں اسے کوئی نشست نہیں ملی تھی۔ جنوبی کشمیر میں دونوں جماعتوں کو 2لاکھ کے قریب ووٹ ملے تھے جو پی ڈی پی کو ملے کل ووٹوں سے کہیں زیادہ تھے۔ایک کانگریس لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر چہ ہم نے سرینگر پارلیمانی حلقہ میں کامیابی درج نہیں کی تھی تاہم اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے تھے، اس طرح سیٹ شیئرنگ فارمولہ دونوں جماعتوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔‘‘نیشنل کانفرنس اور کانگریس لیڈران کے درمیان پیر کے روز بھی بات چیت کے دور ہوئے۔ کانگریس کے حلقوںمیں غلام احمد میر اور پیر زادہ محمد سعید کے ناموں کا چرچا ہے ، میر کو گزشتہ اسمبلی الیکشن میں قریب 200ووٹوں سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ طار ق حمید قرہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں، ایک تو وہ ریاست کی سیاست پر ہی توجہ مرکوز کرنے کے خواہاں ہیں دوسرا ابھی تک اُن زمینی حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے پی ڈی پی اور پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر چہ نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ کے اس بیان پر کانگریس نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے جس میں اول الذکر نے اپوزیشن پارٹیوں کو 2019کے بجائے 2024کے الیکشن کی تیاری کا مشورہ دیا تھا ۔ کانگریس کے قومی ترجمان رندیپ سنگھ سورجیوالا نے عمر عبداللہ کو تلقین کی ہے کہ وہ قومی سیاست میں دخل دینے کے بجائے اپنی جماعت کو مضبوط بنانے پرتوجہ دیں ۔اس کے جواب میں عمر عبداللہ نے فوری طور پر ٹویٹ کر کے کہا ہے کہ اگر آپ سچائی کو ہضم نہیں کر سکتے تو کانگریس کو جو مل رہا ہے ، آپ اسی کے مستحق ہیں۔ تاہم اس بیان بازی کے کانگریس این سی مفاہمت پر اثر انداز ہونے کا اندیشہ بہت کم ہے ۔ادھربھارتیہ جنتا پارٹی نے مجوزہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات کو رد نہیں کیا ہے ، اس ضمن میں حتمی فیصلہ عنقریب ہی لئے جانے کی توقع ہے ۔ ان نشستوں پر اگلے ماہ کی 9اور12تاریخ کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ بی جے پی کی ریاستی ترجمان سنیل سیٹھی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ان دونشستوں کے لئے ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ، تاہم مقامی ورکروں کی رائے ہے کہ پارٹی کو دونوں نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے چاہئیں۔ بی جے پی نے گزشتہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے دوران وادی میں امیدوار کھڑا کئے تھے لیکن ان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ قابل ذکر ہے کہ مخلوط سرکار تشکیل دینے کے بعد بی جے پی اور پی ڈی پی نے قانون ساز کونسل اور راجیہ سبھا کے لئے سیٹ شیئرنگ فارمولہ کے تحت الیکشن میں حصہ لیا تھا تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی لیڈران اور کارکنوں سے صلح مشورہ کے بعد ہائی کمان کو رپورٹ بھیجی جائے گی جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔جنرل سیکریٹری اشوک کول نے سوموار کو گاندربل کا دورہ کیا جبکہ ریاستی صدر ست پال آج وادی کا دورہ کررہے ہیں۔