سرینگر// محکمہ پی ڈی ڈی میںکام کررہے ملازمین بغیر تربیت 24گھنٹے موت کے ساتھ کھیل کر وادی میں بجلی سپلائی کو بحال رکھتے ہیںجو ان ملازم کیلئے جان کا خطرہ ثابت ہورہاہے۔ملازمین یا ڈیلی ویجروں کی اموات کے جو بھی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محکمہ میں کام کر رہے ساڑھے دس ہزار نیڈ بیسڈ ملازمین کے علاوہ ڈیلی ویجروں اور لائن مینوں کی معقول تربیت کے حوالے سے کوئی بھی تربیتی مرکزوادی میں قائم نہیں کیا گیا ہے ۔الیکٹرسٹی ریگولیٹری ایکٹ میں یہ بات صاف طور پر کہی گئی ہے کہ ڈیلی ویجروں اور نیڈبیسڈ اہلکاروں کا تعین محکمہ میں غیر تکنیکی نوعیت کے کاموں کیلئے کیا جاسکتا ہے لیکن محکمہ ایسے اہلکاروں سے وہ کام بھی کراتے ہیں جن کیلئے اُن کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے ناتجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ یہ اہلکار یاتو لقمہ اجل بن جاتے ہیں یا پھر آپاہچ ہو جاتے ہیں ۔محکمہ بجلی ایک تکنیکی ادارہ ہے جس میں تربیت کے بغیر کوئی اہلکار کام نہیں کرسکتا۔ پہلے پہل محکمہ میں بھرتی عمل کے دوران ان امیدواروں کو ترجیح بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جاتی تھیں جو ایک سال کی آئی ٹی آئی ٹریننگ کورس کی اسناد رکھتے تھے، لیکن جب سے محکمہ حکمران جماعتوں کا اکھاڑہ بن گیا تب سے نیڈ بیسڈ اور عارضی ملازمین کواندھا دھند طریقے سے تعینات کیا جاتا رہا ہے جس میں تربیت یافتہ لوگ نظر انداز کئے گئے اور منظور نظر افراد کو روزگار فراہم کیا گیا۔(نیشنل ٹریننگ پروگرام فار پاور سیکٹر ) بجلی شعبہ کیلئے قومی تربیتی پروگرام کے تحت محکمہ کے ہر ایک ملازم کو سال میں ایک ہفتہ ٹریننگ دینا لازمی ہے اور اس کیلئے محکمہ کو رقوم بھی فراہم کئے جاتے ہیں ۔محکمہ کے ذرائع نے بتایا کہ زیادہ تر ملازمین کوبجلی سے متعلق کوئی جانکاری ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان سے کام لیا جاتا ہے۔ایسے ملازمین کو پہلے ضلع سطح پر تربیتی مراکز میںجانکاری دینے کی ضرورت تھی اور اس کے بعد انہیں کام پر لگایا جاسکتا تھا ۔ذرائع نے بتایاکہ چند برس قبل حکومت نے پی ڈی سی اور پی ڈی ڈی ملازمین کی تربیت کیلئے بگلیار فسٹ پروجیکٹ میں ایک تربیتی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اگرچہ تربیتی ادارہ قائم کیا گیا لیکن وہاں عملے کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی جس کی وجہ سے یہ ادارہ بند پڑا ہے ۔اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تربیتی مرکز میں باضابطہ طور پر سپر انٹنڈنٹ سطح کے آفیسر کو بحثیت پرنسپل تعینات کیا جائے گا ۔ اس وقت وادی میں ایسے ملازمین کیلئے کوئی بھی ایسا تربیتی مرکز قائم نہیں اورنہ ہی مستقبل میں اس نوعیت کے حادثات کو ٹالنے کیلئے کوئی تدبیر کی جارہی ہے۔ الیکٹریکل ایمپلائز یونین کے صدرعبدالسلام راجپوری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا یہ سچ ہے کہ یہاں ایسے ملازمین کیلئے تربیتی مراکز دستیاب نہیں اور یہ سرا سر ظلم کی انتہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے ڈیڑھ سے پانچ فیصد فنڈس بھی ہر سال رکھے جاتے ہیں لیکن وہ فنڈس کہاں جاتے ہیں کسی کو بھی معلوم نہیں۔انہوں نے کہا کہ جو تربیتی مرکز بگلیار میں رکھا گیا ہے اُس کیلئے 60لاکھ روپے واگذار کئے گئے تھے لیکن استعمال میں نہیں لائے گئے۔ راجپوری نے بتایا کہ محکمہ کے پاس کوئی گائیڈ لائن ہی نہیں اور نہ تربیت کے حوالے سے کوئی پالیسی یا اقدامات کرنے کی خواہش ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرتربیتی مراکز کا قیام عمل میں لا کر ملازمین کو تربیت دی جاتی تو حادثات میں کمی واقع ہو سکتی تھی ۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے جب منیجنگ ڈائریکٹر جموں وکشمیر سٹیٹ پاور ڈولپمنٹ کارپوریشن ڈاکٹر شاہ فیصل سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ یہ بگلیارتربیتی مرکز کافی وقت سے بیکارپڑا تھا لیکن اب اس پر کام شروع کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک ایس سی کو وہاں کا پرنسپل تعینات کر دیا گیاہے اور ہم نے حیدآباد کی ایک کمپنی سے بات کی ہے جو یہاں کے اساتذہ کو ٹیکنیکل ٹریننگ دیں گے اور ایک ماہ کے اند ر اندر یہاں پہلے بیج کی تربیت شروع کی جائے گی۔کشمیر میں تربیتی مرکز کھولنے کے حوالے سے ڈاکٹر شاہ فیصل نے بتایا کہ جب بگلیارکا تربیتی مرکز فعال ہو جائے گا اُس کے بعد کشمیر میں بھی ایسا ہی ایک ٹریننگ سنٹر کھولا جائے گا۔