پچھلے کچھ عرصہ سے جموں میںپرامن حالات کو بگاڑنے کیلئے کچھ عناصر مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔رنگوں کے تہوار ہولی کے موقعہ پرانہی شرپسند عناصر نے جموں میں پائی جارہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی تاہم دونوں طبقوں کے سنجیدہ فکر اور معاملہ فہم لوگوں کی بروقت مداخلت سے اس مذموم کوشش کوناکام بنادیاگیا۔واضح رہے کہ ہولی کا جشن مناتے ہوئے کئی موٹرسائیکلوں پرسوار کچھ نوجوانوں نے تالاب کھٹیکاں علاقہ میں اشتعال انگیز ی کی بہت کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ حالات کشیدہ رخ اختیار کرجاتے ،دونوں طبقوںکے سنجیدہ خیال لوگوں نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کر کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تنائو کی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں کو ذائل کر دیا۔ شر پسند عناصر ایسے موقعوں کی ہمیشہ تلاش میں رہتے ہیں اور چاہے کوئی تہوار ہو یا پھر ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ ہو ، ہر بار انہوںنے کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے دوسرے طبقہ کے لوگوں کے جذبات بھڑ ک اٹھیں اور وہ غصہ میں آکروہ کردیں جس سے پھر انہیںحالات خراب کرنے کا موقعہ ملے ۔اگرچہ جموں میں بار بار ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن عام لوگوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی ہے، جسکی وجہ سے وزیر اعلیٰ نے بھی حالیہ اسمبلی سیشن کے دوران کم از کم دو مرتبہ اپنی تقاریر میں جموں کے لوگوں کوسراہتے ہوئے کہاکہ آج کشمیریت، جو انسانیت اور اخوت کے جذبے کا نام ہے ، جموں میں نظرآرہی ہے لیکن شرپسنداس تاک میں ہیں کہ کب پُر امن ماحول کو خراب کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جائیں ۔ اس معاملے کے بعد پولیس نے یہ کہتے ہوئے ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اُتارنے کی سعی کی ہے کہ یہ واقعہ منظم نہیںتھا بلکہ وقتی اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھا، تاہم ابھی تک اس کی جانب سے کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی کیس درج کیاگیاہے ۔مسلم طبقہ کاکہناہے کہ یہ سب کچھ پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہوا لیکن اس پر ایف آئی آر بھی درج نہیں کیاگیا جس کی وجہ سے ان کا پولیس او رانتظامیہ پر بھروسہ متزلزل ہوگیا۔ تہواروں کے موقعوں پر لوگوں کی طرف سے شادیانے منانا ایک معمول ہے اور ہماری تہذیبی وراثت کا حصہ رہا ہے، لیکن اگر اس کی آڑ میں مضموم مقاصد کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جائے اور پھر پولیس اس کی جڑوں تک پہنچنے سے کترائے تو یہ پولیس کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ جموں شہر میں جگہ جگہ پولیس کے ناکے لگے ہوتے ہیں او ر باریک بینی سے گاڑیوں کی چیکنگ بھی کی جاتی ہے لیکن نہ جانے ہولی کے روز ایسے شرپسند عناصر کوکیوںکر کھلی چھوٹ دے دی گئی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوںنے دوسرے طبقہ کے جذبات کو بھڑکانے کیلئے اشتعال انگیز نعرے بازی بھی کی۔حالات کے حوالے سے جموں ایک حساس علاقہ ہے جہاں پولیس اور انتظامیہ کو ایسے موقعوں پر ہی نہیں بلکہ ہر وقت ہی ہوشیار رہناچاہئے اور اس قدر غفلت کا مظاہرہ نہیں کرناچاہئے۔ ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کے لوگ امن پسند ہیںلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو اس امن عمل کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اور ان کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ کب موقعہ ملے اور وہ اس کا فائدہ اٹھائیں ۔ تالاب کھٹیکاں واقعہ کو پولیس اور حکام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ جس کا بھی قصور ہو ،اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو اس طرح سے حالات خراب کرنے کی کوشش کرنے کی جرأت نہ ہو اور نہ ہی دہائیوںسے ایک ساتھ بھائی بھائی بن کر رہ رہے ہندئوں اور مسلمانوںکے درمیان نفرتیں پیداکرنے کی کوششیں کامیاب ہوں۔