بانہال // ریاست جموں وکشمیر میں سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے محکمہ تعلیم اور سرکار کی طرف سے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں اور اس کیلئے بڑی بڑی میٹنگوں اور کانفرسوں کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے مرکزی سرکار کی کئی سکیمیوں سے تعلیم کی بہتری اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کروڑوں روپئے کی رقم بھی ان سکیموں کے زریعے خرچ کی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وادی چناب کے بیشتر علاقوں میں نظام تعلیم مسلسل مشکلات کا شکار ہے۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی اور سکول عمارتوں سمیت دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان نے پہاڑی اور دور دراز کے علاقوں میں ہزاروں غریب طالب علم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگایا دیا ہے اور اب سرکاری سکیموں کی عمل اوری اور سرکاری سکولوں کے روز مرہ کے کاغذی کام انجام دینے کیلئے مْدرسوں کی تعیناتی نے دور دیہی علاقوں میں نظام تعلیم کو مزید اور سخت مشکلات میں ڈالے رکھا ہے اور اس سکیم کو چلانے کیلئے اساتذہ کو علیحدہ کرنا یا سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنا اب محکمہ کیلئے ناگزیر بن گیا ہے۔ سرکاری سکولوں میں میڈ ڈے میلز یعنی بچوں کو دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنے کے علاوہ اس کا حساب و کتاب رکھنے اور کام انے والے سامان کی خرید کیلئے ہر ایک سرکاری سکول سے ایک ایک ٹیچر اس کام سے منسلک رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے مڈ ڈے میلز کام سے جڑے اساتذہ بچوں کو وقت نہیں دے پا رہے ہیں اور نتیجتاً پہلے سے ہی سٹاف کی کمی کا شکار سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم کو ایک اور بحران کا شکار پونا پڑرہا ہے اور پڑھائی کے بجائے اساتذہ کو مسلسل مڈ ڈے میلز اور سکول کے دوسرے کاغذی کاموں میں لگائے رکھنے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم لگاتار متاثر ہے۔ کئی ماہرین تعلیم نے پہلے ہی مڈ ڈے میلز سکیم کو چلانے کیلئے تدریسی عملے کو ممبرا رکھنے کی تجویز دی ہے تاکہ وہ اپنا وقت کھانے پینے کے انتظام کے بجائے بچوں کو پڑھانے میں صرف کرسکیں ۔ سکولوں میں بنیادی سطح پر مد ڈے میلز کی سکیم کو عملانے کیلئے ہر روز کئی اساتذہ سبزی، دال، تیل و رسوئی گیس ڈھونے کیلئے قصبوں اور مارکٹوں کا رخ کرتے دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اگر پڑھانے میں کوتائی ہو بھی جائے لیکن کھانے کے انتظام میں کسی بھی قسم کی کوتاہی سمجھو مڈ میلز ٹیچر اور متعلقہ ہیڈ ماسٹر کیلئے سخت کاروائی کی وجہ بن سکتا ہے۔ کئی ٹیچروں نے بات چیت کے دوران اس نمائیندے کو بتایا کہ مڈ ڈے میلز اگرچہ کئی گنے چنے اساتذہ کیلئے فائدے مند بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کام سے جڑے بیشتر اساتذہ مڈ ڈے میلز کے بجائے پیشہ تعلیم کو اپنا پورا وقت دینے کیلئے اس سکیم سے استاد کو الگ کرنے کے حق میں ہیں۔ بانہال کے مضافات میں واقع ایک مڈل سکول کے ٹیچر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مڈ ڈے میلز کے انچارج ہیں اور پچھلے تین سال سے اسے انجام دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چند روز پہلے وہ بچوں کو تواریخ پرھا رہے تھے کہ کچن سے مڈ میلز تیار کرنے والی خاتون نے اطلاع دی کہ چاول تیار ہوگئے ہیں لیکن سبزی تیار ہونے سے پہلے ہی گیس سلنڈر ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے سکول سے نزدیکی سڑک تک مزدور نہ ملنے کی وجہ سے انہیں گیس سلنڈر خود ہی اٹھانا پڑا اور دوپہر ایک بجے تک ایک مزدور کی مدد سے وہ نیا سلنڈر لیکر سکول واپس پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح کئی بار کلاسز کو منقطع کرکے مد ڈے میلز کی تیاری کے سامنا کرنے کی وجہ سے بچوں کو نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکار سکولوں میں تعینات مخصوص رکھے گئے ایک ایک استاد کا بیشتر وقت دیگر سکول ریکارڈ کاغذی دستاویز تیار کرنے میں لگایا جاتا ہے اور سزا بچوں کوبھگتنا پڑتی ہے۔سرکاری اساتذہ کا کہنا ہے کہ کئی سکولوں میں سٹاف کی کمی کے باوجود ایک سے دو استاد اسی کام میں لگ جاتے ہیں اور اس کے اثرات براہ راست سکول میں تدریس عمل پر پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈ ڈے میل سکیم تیار کرنے کا ٹھیکہ کسی نجی ٹھیکدار یا سپلائر ایجنسی کو دیا جانا چاہئے تاکہ تدریسی عملہ اپنا کام بخوبی انجام دیں سکے۔اْنہوں نے کہا کہ کئی ریاستوں میں میڈ ڈے میلز کا کام انجام دینے کیلئے نجی کمپنیوں اور ٹھکیداروں کی خدمات لی گئی ہیں اور تدریسی عملہ کو صرف درس و تدریس کا کام سونپا گیا ہے اور اس سے سکولوں میں نظام تعلیم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔میڈ ڈے میلز کے علاوہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو اور بھی کئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جس کی وجہ سے انہیں زونل ایجوکیشن آفیسر کے دفتر سے لیکر بنکوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں – سکولی کھاتے سے چھوٹی سے رقم نکالنے کے لئے بھی ان اساتذہ کو دفتروں سے لیکر بنکوں کے چکر کاٹنے میں پورے پورے دن صرف کرنا پڑتے ہیں اور اس کام کے لئے سکولوں میں کسی کلرک کا انتظام نہیں ہے بلکہ ان ہی اساتذہ کو یہ کام بھی انجام دینا پڑتا ہے۔سکول میں میڈ ڈے میلز کو پکانے کے لئے باضابطہ مینو کے تحت بچوں کو دن کا کھانا فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ضلع رام بن کی شاہراوں ، سڑکوں اور قصبوں سے دور دراز کے علاقوں میں تعینات اساتذہ کا کہنا ہے کہ محکمہ کی طرف سے تیار کردہ مینو کے مطابق اگر بچوں کو کھانا نہ ملا تو اس پر بھی ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ایسی بہت ساری سبزیاں و چیزیں دستیاب نہیں ہوتی ہیں اور اس کے لئے اْنہیں قصبہ جات کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشکلات خواتین اساتذہ کو درپیش ؎ہیں جنہیں سکولوں کو چھوڑ کر یہ کام بازاروں کا رخ کرکے انجام دینا پڑتا ہے ۔واضح رہے سرکار ی سکولوں میں زیادہ تر غریب گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تدریسی عملہ کو غیر تدریسی کاموں پر معمور کرنے سے اس کا منفی اثر براہ راست ان بچوں کی تعلیم پر پڑرہا ہے اور اس حال میں سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اس کیلئے اقدامات کرنا ناگزیر بن گیا ہے ۔