سرینگر//بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہی کرناہ کی ایک دکھیاری ماں کی آنکھوں کو بالآخر اْس وقت ٹھنڈک پہنچی جب اس نے24برس بعد اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے کا دیدارواگہ سرحد پر کیا ۔ملن کا یہ منظر اس وقت انتہائی جذباتی بن گیا جب ماں بیٹے نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور دونوں کافی دیر تک روتے رہے۔عالم جان بھی اُن درجنوں مائوں میں سے ایک ہے جو اپنے بچھڑے بیٹے کی یاد میں دن رات آنسو بہاتی رہی ہے۔ 1993سے کرناہ کے کنڈی علاقے سے تعلق رکھنے والی عالم جان اپنے بیٹے کی یاد میں صبح اور شام آنسو بہاتی رہی تھی کیونکہ اس کا بیٹا 1993میں سرحد کے اُس پار ہجرت کر کے چلا گیا تھا ۔ ماں کی صرف ایک ہی تمنا تھی کہ وہ مرنے سے قبل ایک بار اپنے بیٹے سے گلے لگ کر مان کی شفقت اس پر لٹا دے۔لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس24سال تک طویل انتظار کرنا پڑے گا۔24سال بعد جب عمر رسیدہ عالم جان نے اپنے بیٹے کو واگہ سرحدپر دیکھا تو اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔بیٹے نے ماں کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے تو ماںنے انہیں نکال کر بیٹے کے گلے میں ڈالا اور اپنے بیٹے کو گلے لگا کر زار زار رونے لگی۔ بیٹے محمد اکبر کی آنکھوں سے بھی آنسوں کا سیلاب امڈ آیا اور دونوں ایک دوسرے کو سہارادینے لگے ۔کئی منٹوں تک محمد اکبر اپنی ماں کے ہاتھوں کو چومتا رہا جبکہ ماں بیٹے کو بار بار سینے سے لگا رہی تھی۔ ماں بیٹے کا ملن انتہائی جذباتی تھااور وہاں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ عالم جان کو لیکر بیٹا مظفرآباد لے گیا ہے ۔عالم جان جانتی ہے کہ اسکی خوشی کچھ دیر تک ہی رہنے والی ہے کیونکہ ویزا ختم ہونے کے بعد ماں بیٹے میں پھر سے جدائی ہونے والی ہے۔حد متارکہ پر واقع کرناہ تحصیل میں ہزاروں لوگ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں مقیم اپنے ان غزیزوں سے ملنے کیلئے تڑپ رہے ہیں جو 1947کی جبری تقسیم سے لیکر 1990میں شروع ہوئی عسکری تحریک کے دوران حدمتارکہ کے پار چلے گئے ہیں۔ سرحد کے اُس پار چلے گئے راجہ بختیار کی والدہ ظہرہ بیگم ،راجہ علیٰ گوہر کی والدہ بیگم نور، نصیر احمد کی والدہ فاطمہ بیگم اپنے بچھڑوں کی جدائی میں نڈھال ہوچکی ہیں۔فاطمہ بیگم 27برس تک اپنے بچھڑے بیٹے کی یاد میں آنسوبہاتی رہی۔ اورپچھلے سال اس دنیا سے رحلت کر گئی ۔کنڈی کرناہ کی 80سالہ خاتون ظہرہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ مرنے سے قبل اپنے بچے سے صرف ایک بار ملنا چاہتی ہے۔کنڈی کی 81سالہ بیگم نور زوجہ مرحوم محمد حسن حان کا بیٹا علی گوہربھی ہجرت کر کے سرحد پارگیاہے۔