فورسز کو لامتناہی اختیارات سے لیس کرنے والے متنازعہ قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورس ایکٹ کی منسوخی کے حوالے سے ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کےحالیہ بیان اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی سیکرٹری رام مادھو کے ردعمل سے پھر ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ افسپا کے حوالے سے غیر ضروری سیاست کی جارہی ہے اور جان بوجھ کر اس مسئلہ کو اس قدر پیچیدہ بنایا جارہا ہے کہ اس کے حل ہونے کی کوئی سبیل ہی نہ نکلے ورنہ یہ مسئلہ اس قدر آسان اور عام فہم ہے کہ چٹکیوں میں اس کا حل نکالاجائے ۔ریاست جموں وکشمیر پر آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ اور ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کا اطلاق 1990میںریاستی گورنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا اور اب اسکے خاتمے کیلئے بھی ریاستی گورنر ہی ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے ان قوانین کا خاتمہ کرسکتے ۔ رام مادھو کا یہ بیان کہ افسپا کے خاتمے کےلئے ریاستی حکومت کو پہلے ساز گار حالات پیدا کرنا ہونگے، ایک غیر ضروری ردعمل ہے۔ معلوم رہے کہ محبوبہ مفتی نے کہاتھا کہ ریاست میں قیام امن کےلئے افسپا ء کی واپسی ضروری ہے اور کچھ علاقوں سے اسے ہٹا کر آزمائش کی جاسکتی ہے۔ اگرریاستی کابینہ افسپا اور ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کے خاتمے کیلئے گورنر سے رجوع کرے توگورنر محض ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے ان قوانین کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔جب قانونی پوزیشن واضح ہو ،پھر بھی معاملات کو الجھا دیا جائے تو اس میںسیاست کی بو آنے لگتی ہے ۔افسپا کے حوالے سے بھی یہی کچھ ہورہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں مخلوط حکومت کام کررہی ہے جہاں وزیراعلیٰ کے پاس قطعی اختیارات نہیںہیں اور انہیں ہر معاملہ میں اپنی اتحادی جماعت بی جے پی کو اعتمادمیں لینا پڑتا ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ایسے حساس مسئلوں کو بھی مخلوط سیاست کی نذر کیا جائے ۔سیاسی مجبوریوں سے انکار کی گنجائش نہیں تاہم یہ با ت بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ جس بات کو حکمران پی ڈی پی اپنے ایجنڈا کا حصہ مانتی رہی ہے، اس سے احتراز اپنے ووٹروں کے اعتماد سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فوج اس عمل میں ہمیشہ روڑے اٹکاتی رہی ہے ۔وزیراعلیٰ ضرور فوج کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہونگی لیکن اگر تاریخی تسلسل کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فوج کوجہاں جب کبھی بھی کوئی اختیارات حاصل ہوتے ہیں تووہ انہیں کبھی کھونے نہیں دیتی ۔شمال مشرقی ریاستوں میںافسپا 1958سے نافذ ہے۔گوکہ وہاں حالات قدرے بہتر ہیں اور سپریم کورٹ سے لیکر کئی کمیٹیوں نے اس کی منسوخی کی سفارشات پیش کیں تاہم فوج کبھی بھی ٹس سے مس نہیںہوئی اور آج تک ان ریاستوں میں یہ قانون برابر نافذ ہے ۔یہی حال ریاست جموں و کشمیر کا بھی ہے ۔یہاں بھی یہ قانون 1990سے نافذ ہے اور جب سے اب تک حالا ت میں کافی بہتری آئی تاہم فوج ہے کہ ان اختیارات سے محروم ہونا ہی نہیں چاہتی ۔حالانکہ ماضی میں سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نےبھی اسکی حمایت کی تھی ۔ آج نہیں تو کل ،فوج کو افسپا کی جزوی واپسی کیلئے قائل کریں گی تویہ خوشی کی بات ہوگی لیکن بھاجپا مرکزی سکریٹری کی وضاحت سے فی الوقت ایسی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔وزارت دفاع نے اس قانون کے تعلق سے اپنا مؤقف واضح کر رکھا ہے کہ ابھی اس قانون کی کافی ضرورت ہے اور اس میں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔اس کے باوجود بھی اگر وزیراعلیٰ اُن سے امید لگائے بیٹھیں تو کیا کیا جاسکتا ہے تاہم انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ افسپا کا تعلق براہ راست ریاستی عوام سے ہے اور اسی قانون کی وجہ سے ریاست میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں۔وزیراعلیٰ چونکہ عوامی نمائندہ ہیں ،لہٰذا اُن سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان کیلئے سب سے پہلے عوامی مفادات ہی مقدم ہونے چاہئیں کیونکہ وہ عوام کی حمایت سے اقتدار میں ہیں۔عوامی مفادات کی آبیاری کا تقاضا ہے کہ پہلی فرصت میں اس قانون کی تنسیخ کا عمل شروع کیا جائے اور اس سلسلہ میں پی ڈی پی کو شریک اقتدار بی جے پی پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔عین ممکن ہے کہ فوج اس پر کھل کر اعتراض جتلائے تاہم یہ ریاستی سرکار کا کام ہے کہ وہ عوامی مفاد میں اسے بھی اس بات کیلئے تیار کرے کہ وہ اس قانون بے قانون کی جزوی واپسی کیلئے ذہنی طور تیار ہوجائے ورنہ یہاں معصومین کا خون بہتا رہے گا ۔وزیراعلیٰ کا آزمائشی طور پر کچھ علاقوں سے یہ قانون ہٹانے کا مطالبہ لے جانہیں ہے۔ کیونکہاگر بدلائو لانا ہے تو جرأتمندی لازمی ہے اور جرأتمندی کا تقاضا ہے کہ کابینہ سے اس قانون کی جزوی یا کلی منسوخی کے حوالے سے فیصلہ لیکر گورنر سے ایک اعلامیہ جاری کروایا جائے تاکہ تبدیلی کا آغازکیاجاسکے۔