Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

خواتین پر جگر سوز تشدد

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 23, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
کائنات کی زیب وزینت کا سہرا عورت کے سر جاتا ہے ۔وہ معاشرے کی حقیقی معمار ہوتی ہے۔معاشرے میں نکھار پیدا کرنے اور اسے خوبصورت بنانے کا فن صرف عورت ہی جانتی ہے اوربنت حوا کے اچھے کردار اور نیک اطوار سے ہی ایک تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر ایک مرد کو تعلیم یافتہ کر دیا جائے تو ممکن کہ اس کا فائدہ صرف اس کی ذات تک ہی محدود رہے لیکن ایک عورت کو تعلیم دینے سے مراد ایک پوری نسل کو تعلیم دینا ہے کیونکہ اسی کی آغوش ِ محبت میں تہذیبیں پنپتی ہیں ،شخصیات پروان چڑھتی ہیں ، تقدیریں سنورتی ہیں اور زندگیاں بنتی ہیں۔عورت جس روپ یا رشتے میں ہو وہ اپنے کچھ حقوق اوراختیارات رکھتی ہے۔ وہ چاہے ماں بہن بیٹی شریک حیات ہو وہ نرم و نازک آبگینہ ہوتی ہے، اس کے اندر احساس و جذبات کا گھروندا بستا ہے، وہ اپنی نسوانی خواہشات کی دنیارکھتی ہے لیکن افسوس کہ ہم جس بگڑے ہوئے معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں مرد کے غلغلہ ، اتیاچار، استحصال اور سفلہ پن کی حکمرانی ہے ، یہاںاکثر شوہر اپنی شریک حیات کو داسی سمجھتا ہے ، اس کے حقوق کو اپنے اوپر ایک ابر گراں سمجھتا ہے اور ہر معاملے میںاس پر غالب آنا چاہتا ہے۔فرسودہ روایات کے مارے ہوئے اور پسماندہ ذہنیت رکھنے والے لوگ آج بھی سماج میںعورت کو حقیر ہی جانتے ہیں ۔ان کے حقوق کو پامال کرنا اپنا اختیار کلی سمجھتے ہیںاور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ عورت سے ہمیشہ چپ چاپ تابعداری اور فرماں برداری چاہتاہے اوراسی سے اچھی توقعات بھی رکھتا ہے اور دیکھا یہ گیا ہے کہ مرد کی خوش قسمتی سے اُسے اس کی سوچ اور امید سے بھی زیادہ عورت سے اچھا ملتا ہے۔اسے کانٹوں کے بدلے ہمیشہ پھول ہی ملتے ہیںکیونکہ عورت ذات میں صبر اور برداشت کی صلاحیت مردکی نسبت کئی گنا ذیادہ ہوتی ہے۔وہ خود میں اَنا اور انتقام کی آگ کو لگنے سے پہلے ہی بجھا دیتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق آج دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہے اور یہ شرح سماجی شعور اور اخلاقی حس رکھنے والے ہر فرد بشر کے لئے ایک لمحہ ٔ  فکریہ ہے۔خواتین پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔اس دن کا اہم مقصد عوام میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے بارے میں اور اس تشدد کی وجہ سے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات بارے میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پچیس نومبر سے دس دسمبر(انسانی حقوق کاعالمی دن )تک عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے ایک سولہ روزہ مہم چلائی جاتی ہے کیونکہ آج بھی عورتوں کو جنسی ، جسمانی یا نفسیاتی تشدد کے ذریعے کچلنے دبانے کی کوشیش کی جاتی ہے۔ یہ المیہ نہ صرف ہمارے ملک تک محدود ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک کی بہت سی خواتین کے ساتھ بھی تقریباً یہی بُرا سلوک روا رکھاجاتا ہے۔ عورت پر تشد د روارکھنا نہ صرف ایک ناقابل معافی ظلم ہے ، جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ عالمی سطح پر ایک تجزیے کے مطابق تمام دنیا کی 35% خواتین یا لڑکیاں اپنی تمام زندگی میں کسی جسمانی ، نفسیاتی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔تمام دنیا کی خواتین میں سے250ملین ایسی ہیں جن کی 15 سال سے بھی کم عمرمیں شادی کر دی جاتی ہے۔ کم عمر میں شادی ہونے والی خواتین کی ایک تو تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے اور دوسرا وہ ذہنی طور پر ذیادہ پختہ نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے انہیں عملی ذندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے بھی وہ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔مرد کے ہاتھوں عورت پر تشدد کرنے کے پیچھے مرد کے انفرادی نفسیاتی مسائل، زندگی کا ناقابل برداشت دباؤ ، منشیات یا الکوحل کا استعمال ، شکی مزاج ہونا ، عورت کا چڑ چڑا پن ، کھانا وغیرہ پکانے کی عدم صلاحیت، کم جہیز لانے یا عورت کا خود اپنے سسرالی رشتوں کو نبھانے میں کوتاہیاں اور عدم توازن جیسے عوامل بالعموم کا رفر ما ہوتے جو کل ملاکر حوا کی بیٹی کے واسطے گھریلو تشدد کی وجوہ بنتے ہیں۔ خواتین پر تشدد یا انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا ان کی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور ان کی خود اعتمادی اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ا س سب سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں میں فیصلہ سازی کے حوصلے کو بھی کم کرتا ہے۔وہ قانون اور معاشرتی اسالیب ِ تہذیب کے ہوتے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ اور ناپسندیدہ تصور کرنے لگتی ہیں اور اپنے مستقبل بارے میں ایک غیر یقینی صورتِ حال میں جکڑ جاتی ہیں۔ایک طرف تو مرد عورت کو اپنی زندگی کی ہیرؤین بھی کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی ہی شریک حیات سے ایک بد ترین ولن جیسا سلوک کیوں کرتا ہے۔ حالانکہ ابدی حقیت یہ ہے     ؎ 
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِودروں
 اسلامی نقطہ ٔ نگاہ سے دیکھیں تو عورت کی ذات کو جس قدر عزت مذہب اسلام نے دی ہے دوسرے کسی بھی مذہب یا عقیدے مفکورے نے نہیں دی۔اسلام نے ہی ایک عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کئے اور عورت کو یہ مقام ِ بلند عطا کیا کہ اگروہ بیٹی ہے تورحمت،اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر ظلم وتشدد کی بھٹیاں تپائی جاتی ہیں ، کہیں اس پر جہیزی ہلاکت کا وحشیانہ حربہ استعمال کیا جاتاہے ،  کہیںتیزاب پھینکا جا تا ہے ، کہیں اس کی آبروریزی کی جاتی ہے ، کہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے، کہیں وہ غیرت کے نا م پر قتل ہو رہی ہے اور کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ مرد حامی معاشرہ عورت کو کمزور  اور حقیرجانتا ہے لیکن شائد عورت ذات کا اتیا چاری مردکو ایک عورت کی طاقت کا اندازہ نہیں ، اگر بالفرض عورت ستی ساوتری  کا روال چھوڑ کر مرد کے خلاف باغی ہو جائے تو پھر اس سے بڑا باغی اورداداگیری کر نے والا کوئی نہیں، اگر وہ انتقام پر اتر آئے تو اس سے پھیلنے والی تباہی کی کوئی حد نہیں۔ بہر کیف اگر معاشرے کو متوازن اور انصاف کا متوالا بناناہے تو عورت کو اپنا مقام ِ عزت دینے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ مرد کے لئے پیروں کی جوتی نہ بنی رہے بلکہ گھر کی مالکن ، امور خانہ داری کی ملکہ ، بچوں کی شخصیت ساز، مرد کی مشیر اور رشتوں کے تقدس کا خیال رکھنے والی بنے ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ  عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔(سورہ البقرہ۔)ایک اور جگہ ارشاد ِ ربانی ہے کہ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔(سورہ النساء )۔ مسلم معاشرہ ماضی ٔقریب تک عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں حساسیت میں لاثانی تھا مگر بہ حیثیت مجموعی یہاں بھی اخلاقی زوال کے باعث اسلامی تعلیمات سے جتناانحراف بڑھ رہا ہے، اسی مناسبت سے عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بڑھ رہی ہیں ۔ ا س سلسلے میں زیادہ تر مسلم معاشرے کا وہ طبقہ پیش پیش ہے جو علم وتہذیب سے نا بلد ہے ۔ اس کے یہاں یہی منفی سوچ ہے کہ بیوی کی حیثیت ایک نوکرانی جیسی ہے ، اس سے جیسے چاہو کام لواور جتنا اسے دباؤ اتنا بہتر۔
امریکن اور یورپین معاشرہ میں جہاں آزادیٔ نسواں کی تحریک چلائی جاتی ہے ،ا نہی وجوہ کی بنا پر اسلام پر دقیانوسیت کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ خواتین کی حق تلفی کے حوالے سے مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ خود وہاں سب سے زیادہ عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے،ا نہیں جنسی شو پیس سے زیادہ ا ہمیت دی جاتی ،وہ کاروباری اشتہارت کی بر ہنہ تصویروں سے زیادہ افادیت نہیں رکھتی ۔ آج کی ایک تازہ ترین نیوزجو ہمارے سامنے ہیں اسے پڑھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے مغربی معاشرہ عورتوں کس قدر محفوظ ہیں ۔ ایک امریکی جیل میں ایک قیدی نے محافظ دستہ میں شامل چار عورتوں کو حاملہ کردیا ہے ۔ امریکی معاشرہ کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، وہاں یہ روزمرہ کا معمول ہے ۔ آزادیٔ نسواں کے نام پر وہاں کی خواتین کے تعلق سے وہی رویہ اور روش اپنائی جاتی ہے جو پتھر کے زمانے میں وقت کے معاشرہ کا طرزعمل تھا ۔ یہ اس دور کے انسان کی یاد تازہ کرتاہے جب انسان ننگا پھرتاتھا ، تہذیب سے ناآشنا تھا، درخت کے پتوں سے جسم کو ڈھانپتا تھا ۔ مغربی تہذیب آج عورت کے بارے میں اسی قدیم روایت پر عمل کررہی ہے  جو سب سے بڑی دقیانوسی ہے اور عورتوں پر ظلم بھی اسی معاشرہ میں سب سے زیادہ ہورہا ہے مگر افسوس کہ اول اپنے گریباں میں جھانکنے کی بجائے مشرق کو غیر مہذب اور عورت کا اتیا چاری سمجھتاہے اور دوم مسلمان ہیں کہ اسی مغرب کی دیکھا دیکھی میں عورت کو ذلت وخواری سے پامال کرتاہے ۔ عورت کے خلاف تشدد اسی ایک کڑی ہے ۔ تاہم آج بھی ہم میں ایسے نمونے گھرانے موجود ہیں جہاں بہو بیٹیوں کو گھر کی عزت سمجھ کر ہر اعتبار سے پیار اور دُلار ملتاہے ۔ ہمیں انہی کی تقلید کر کے بنت حوا کو اس اک مقام ومر تبہ دینا چاہیے۔   

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہندوستان آئیں گی پاکستان کی ہاکی ٹیمیں
سپورٹس
بریتھویٹ100ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے خصوصی کلب میں شامل ہونگے
سپورٹس
پہلاکھیلو انڈیا واٹر سپورٹس فیسٹیول اگست کے مہینے میں ڈل جھیل میں منعقدہوگا
سپورٹس
شبھمن گل نے تاریخ رقم کی ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی ڈبل سنچری بنائی
سپورٹس

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?