شوق کا پنچھی محبت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار شمع ِرسالت مآبؐ کے ا یک ا ور پروانے کی ہست وبود کو اپنی مشتاقانہ نگاہوں سے دیکھ رہاہے۔ یہ سر سید احمدخان ہیں۔۔۔قلبی آرزو یہ ہے کہ مسلمان کے ایک ہاتھ میں فلسفہ ہو ، دوسرے ہاتھ میں سائنس ہو اور سر پہ کلمہ طیبہ کا تاج ہو۔۔۔ ہندی مسلمانوں کا محسن ، قوم کی ناخواندگی کو علم و آگہی کے نور سے بدل دینے والامرد ِ دُرویش، دانش ِحاضر سے ملت کے احیاء نو کا مخلص داعی ۔۔۔ اُن کے نہاں خانہ ٔ قلب میں واحد تڑ پ کہ مسلمانانِ وطن کے تن ِمردہ میں کیسے جان ڈالی جائے، یہی ایک دُھن ہر لمحہ ذہن پر سوار ہے، یہی متاعِ فقیر ہے، یہی روز وشب کا وظیفہ ٔ حیات ۔ سر سید تاڑ رہے ہیں کہ 1857ء کے مابعدانگریز سامراج کے زیر تسلط مسلمانان ِ وطن زندگی کے دھارے سے بالکل الگ تھلگ پڑے ہیں ، نہ ان کا کوئی وقار ہے نہ کوئی ا عتبار، معتوب بھی ہیں مقہور بھی ہیں ، مغلوب بھی ہیں ، مفلوج بھی ہیں ۔ فضائیںمایوس کن ہیں، اصلاح ِ احوال کا دور دور تک نام ونشان نہیں مگر سید کواپنی کشت ِویران سے نومید نہیں، وہ اسے سرسبز وشاداب دیکھنے کی آرزو میں مچل ر ہے ہیں۔ یہی فکر مندی سید کو علم ودانش کی وسیع شاہراہ پر ہمہ تن فعال بنارہی ہے تاکہ اُن کی سوئی ہوئی قوم ازسر نو زندگی کے دھارے سے جڑجائے۔ اپنی منزل ِ مقصودپانے کے لئے ایک ہاتھ وہ انگریز سے مسلمان رعایا کی دوستی،مفاہمت اور میل موانست کا پل بن رہے ہیں ، دوسرے ہاتھ انہیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کر نے کا جذب و جنون سر چڑھ کے بول رہا ہے ۔ علی گڑھ تحریک اسی نخل ِتمنا کا نام پڑتا ہے ۔ سید کو روشن خیال اور دور اندیش مسلمانوںکی حمایت حاصل ہے ،البتہ انگریزوں سے بہت زیادہ قربت ، جد ید علوم سے غیر معمولی رغبت اور قومی اصلاح کے حوالے سے ان کے بعض بحث طلب مذہبی خیالات کے سبب ان کی راہ میں صد ہامشکلات وموانع بھی آرہی ہیں ۔ معاونین اُن کی ہمت بڑھارہے ہیں ،ناقدین تیر بر سا رہے ہیں،مخالفین حملے بول رہے ہیں۔ سید کو قوم کے وسیع تر مفاد میں ہر چیز خندہ پیشانی سے قبول ہے مگر چلتے چلتے بات جونہی سید کے ایمان ا ور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش پر اٹک جاتی ہے تو سیرت محمدی ؐ کے دفاع میں آپ کی ساری مصلحتیں اپنے آپ پگھل جاتی ہیں اور حالات سے سمجھوتہ بازیوں یا مسلمانوں کی مجبوریوں کے زیر اثر مغرب نوازیوں کا سارا نشہ ہرن ہوجاتا ہے ، اور دنیا دیکھتی ہے کہ ایک عاشق رسول سید کا جنم پاتاہے جو سراپا محبت النبی ؐ میں گم ہے ، جو خلوص کا یہ پیکر ہے ، جسے محبت النبی صلی ا للہ علیہ وسلم میں ا پنا سب کچھ خوشی خوشی لٹا نے میں مز اہی نہیں روحانی سکون بھی آتاہے ۔
یہ انیسویں صدی کا نازک زمانہ ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں اپنے قدم پورے طور جما چکی ہے اور انگریز سامراج کا سیاسی دبدبہ دارالسلطنت دہلی پر بھی مسلط ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین کو کہیں دھوکہ ، کہیں سازش ، کہیں طاقت کے بل پر ہڑپنے اوراپنے زیر نگین لانے کے باوجود ا س کے توسیع پسندانہ عزائم کوابھی تسلی نہیں ہوئی ہے ۔ انگریز چاہتا ہے کہ یہاں کے مذاہب و عقائد بالخصوص اسلام پر دھاوا بولاجائے تاکہ سامراجیت کا قبضہ سروں پرہی نہیں دلوں اور عقیدوں تک پر بھی مستقلاً جم جائے ۔ اسی مذموم مقصد سے لشکر ابرہہ کی طرح پادریوں کی فوج در فوج واردِ ہند کی جارہی ہے ، پادری نسلاً انگریز ہی سہی مگر اردو بول چال میں خاصی مہارت رکھنے والے ہیں ، مقامی مسلمانوں سے ان کی زبان میں اسلام مخالف زہر افشانیاں کرر ہے ہیں ۔یہ لوگ حکومتی سر پرستی میں عیسائیت پھیلانے میں زور وشور سے منہمک ہیں، مناظرے ہورہے ہیں ، مباحثیں چل رہے ہیں ، فتنے اُٹھ رہے ہیں، تشکیک کے سامان کئے جارہے ہیں، قرآن کریم پر رکیک حملے ہورہے ہیں ، خاص کر ذات ِ پاک رسول صلی ا للہ علیہ وسلم کے ضمن میں گستاخیاں اور سب وشتم کا بازار گرم ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ رسالت مآب ؐ کے ساتھ مسلمانوں کا جو اٹوٹ رشتہ بندھا ہو اہے، وہ جب تک ڈھیلا نہ پڑجائے اس وقت تک کلمہ خوان اسلام پر پروانہ وار فدا ہوتے رہیں گے ۔ پادریوں کو مقامی مرتدین کی کمک بھی حاصل ہے جن کی زد سے سادہ لوح مسلمانوں کا اپنا دین وایمان بچا پانا مشکل ہو رہاہے ۔ عماد الدین نامی ایک مسلمان جس نے ارتداد اختیار کر کے عیسائیت قبول کی ہے ، وہ حیات طیبہ ؐ کی شان میں کھلے عام گستاخیاں کر تا جارہاہے۔اس کی واہیات کتاب کا مسکت ومدلل جواب دینے کا سہرا بھی بندھ جاتا ہے تو سر سید احمد خان کے دست ِ راست کہلانے والے مولانا الطاف حسین حالی ؔ اور مولوی چراغ علی کے سر ہی ۔ اسی اثناء میں عربی ا ور فارسی پر کامل عبور رکھنے والایوپی کا انگریز لیفٹینٹ گورنر سر ویلیم میور، جو مستشرق بھی ہے ، ’’لائف آف محمد ؐ ‘‘کے عنوان سے چار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب قلم بند کر دیتا ہے تاکہ اس رشتۂ جاودانی میں دراڑیں پیداہوں ۔ ابھی یہ کتاب منظر عام پرآئی بھی نہیں کہ ا س کے بڑے چرچے ہورہے ہیں ۔ جب یہ فتنہ بازار میں آتا ہے تو مخلص مسلمان اسے دیکھ کرقدرتی طور دُکھی ہوجاتے ہیں کیوں کہ مصنف اپنی جملہ خباثتیں کتاب میں جمع کر کے سیرت مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دل آزاریاں کر چکاہے ۔ سر سید انگریزوں کے دوست ہیں ، خیرخواہِ قوم ہیں ،مغرب سے ذہنا ًوقلباًمتاثر بھی ہیں، ان کے افکار سے مرعوب ہیں،ا ن کے علوم و فنون کے دلداہ ہیں، ان کی تہذیب کے پیام بر ہیں۔ انہی وجوہ سے آپ1857ء کی پہلی جنگ آزادی سے لاتعلق رہے ہیں بلکہ انگر یزوں کی ہمدردی میں کہیں گوروں کی جانیں بچائی ہیں اور کہیں ان کی عزتیں ۔۔۔ بایں ہمہ میور کی اَناپ شناپ کتاب اُن کو ایک دوراہے پر کھڑا کر چکی ہے ، اب اُنہیں طے کرنا ہے کہ انگریز دوستی کی طرف داری میں اسلام پریہ حملہ منافقانہ چال چل کر بر داشت کر یں گے یاعاشقانہ طرز عمل اختیار کر کے اپنے عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ہر چیز قربان کر یں اور سیرت طیبہ ؐ کے اصل حد وخال کو سامنے لائیں ۔ یوں میور کی کتاب اسلام کے حوالے سے ان کے قلب وضمیر کی جانچ پر کھ کے لئے ایک کسوٹی بن گئی ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہرکسی مسلمان کی اصل متاعِ حیات محبت النبی ؐہے ، یہی اس کے دونوں جہانوں میں کا میابی کی واحد ضمانت ہے ، اسی کے اردگرد مسلمان کی تمام دوستیاں اور دشمنیاں گھومنی چاہیے ، اسی کی روشنی میں پسندو ناپسند اور جوڑ اور توڑ ہوناچاہیے، وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان فرد ہو یا قوم، اس کی ترقی وکمال صرف آقائے ودجہاںؐ کی چوکھٹ کی جبہ سائی سے مشروط ہے اور ایک بار اس محبت میں ذرا سا جھول آجائے تو ایمان اور عقیدے کی ساری عمارت دھڑام سے نیچے آگر ے ، پھر تو دعویٰ ٔ ایمان مشتبہ، عمل بے مقصد، یقین بے لنگر جہازاور خسران ِ مبین انسان کامقدر ہونا ہی ہوناہے۔ سید چونکہ بہ حیثیت مسلمان دامن گرفتہ ٔ رسول ؐ ہیں اور حب ِبنی ؐ کی راہ میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ صادقہ رکھتے ہیں اور سلیقہ بھی جانتے ہیں ،ا س لئے بغیر کسی ادنیٰ پس وپیش کے میور کی دریدہ دہنیوں ، گستاخیوں اور علمی خیانتوں کا پردہ چاک کر نا چاہتے ہیں تاکہ محمد عربی صلی ا للہ علیہ وسلم سے اپنے والہانہ عشق کی لاج رکھی جاسکے، مسلمانوں کو ارتداد سے بچایا جائے ، تاریخ اسلام کو مسخ کر نے والے کو دندان شکن جواب دیا جائے ۔ سر سید کو احسا س بھی اور شعور بھی کہ میور نے اپنی متنازعہ کتاب میں جہل و تعصب اور کج فہمی وکور دماغی کو علمی مباحثے کی صورت میں پیش کر تے ہوئے جو فتنے جگائے ہیں ان کا معروضی انداز میں توڑ کرنے کے لئے حق اور با طل کا چھانٹا جانا لازم وملزوم ہے ۔
یہ بے لوث عاشق رسول ؐ سید زداہ نواب محسن الملک کو ایک خط میں اپنا یہ حال احوال سناتے ہیں: ان دنوں ذرا میرے دل کوسوزش ہے، ولیم میور صاحب نے جو کتاب آں حضرت ؐ کے حالات میں لکھی ہے، اس کو میں دیکھ رہاہوں، اس نے دل کو جلادیا۔اس کی ناانصا فیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصم اردہ کیا کہ آنحضرت صلعم کی سیرت میں جیسے کہ پہلے بھی ارادہ تھا، کتاب لکھ دی جائے۔ اگرتمام روپیہ خرچ اور میں فقیربھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلاسے ! قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جاؤں گا کہ اس فقیر،مسکین احمد کو جو اپنے داد محمد صلعم کے نام پر فقیر ہوگیا، حاضر کرو ع
مارا ہمیں تمغۂ شاہنشہی بس است
میور کی کتاب بازار میں آتی ہے تو بقول حالیؔ سر سید پر بے چینی واضطراب کا جنون سا طاری ہوجا تاہے ، دل شکنی اور کرب کی حالت میں ان کی زبان پر ہمیشہ اس کتاب کا ذکر آتا رہتاہے۔ مولاناحالیؔ کی روایت ہے کہ اُس زمانے میں عیسائی میور کی واہیات پر سردُھنتے اور مسلمان سر پیٹتے ۔ سر سید اس بات سے لاپرواہ اور بے نیا زہوکر کہ ان کا انگریزسامراج کے حاضر سروس اعلیٰ عہدیدار سے ٹکر لینے کے نتائج کیاکیا ہو سکتے ہیں، ۱۸۶۹ء کو اپنے ذاتی خرچہ پر انگلستان پہنچ جاتے ہیں کیونکہ وطن میں انہیں وہ علمی مواد سرے سے میسر ہی نہیں ہوتاجومذکورہ کتاب کا جواب لکھنے کے لئے از بس ضروری ہے ۔ برطانیہ میں انڈیا آفس ، برٹش میزئم لائبر یری اور دیگر لاتعداد کتب خانوں کی خاک چھانتے ہوئے وہ اپنے احباب کو اس کام میں اپنی ہمہ وقت مصروفیت جان کاری مکتوبات کے ذریعے وقتاًفوقتاًاطلاعات دیتے رہتے ہیں۔ ایک موقع پر اپنے دست ِراست نواب محسن الملک مولوی مہدی علی خان کے نام خط میں لکھتے ہیں اس کام ( مطلب میور کی کتاب کا جواب لکھنے میں ) کی تکمیل کے لئے میں نقد ِجان صرف کر نے کے لئے بھی آمادہ ہوں ۔ قیام انگلستان کے دوران ہوشربا خرچہ اُٹھانا سید کے بس کا روگ نہیں، وہ اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے قرضے اُٹھائے جارہے ہیں اور ایک جاں گسل موقع ایسا بھی آتا ہے کہ انہیں مہدی علی خان کو یہ لکھنے سے بھی ذرا بھی تامل نہیں کہ میرا فلاں مکان بیچ ڈالئے اور رقم ارسال کیجئے۔ جب ضروریات اور بڑھ گئیں تو موصوف کو ہدایت دیتے ہیں کہ میرے فلاں گھر میں تانبے اور پیتل کے برتن ہیں ، انہیں فروخت کر کے رقم کا انتظام کریں۔
انگلستان میں سر سید مالی وسائل کی کم یابی اور تنگ دستی کے باعث میور کی دل آزار کتاب کے صرف ایک جلد کا جواب لکھ کر وطن واپس لوٹ آتے ہیں اس اُمید کے ساتھ کہ بقیہ تین جلدوں کا کام بھی کیا جائے گا مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان کا خواب ادھورا ہی رہتا ہے ، حالانکہ انگلستان سے واپسی کے بعد آپ پورے ستائیس سال بقید حیات رہتے ہیں ۔ لندن میں بیٹھ کر سر سید کواردو اور انگریزی کے دومترجمین کی با معاوضہ خدمات بھی حاصل کرناپڑتی ہیں جن کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات ان کے لئے بھاری بھر کم ثابت ہوتے ہیں مگر وہ اسے کارثواب جان کر برداشت کر تے ہیں ۔ یہ کتاب پہلے ولایت میں ہی انگریزی زبان میں۱۸۷۰ء کو شائع ہوتی ہے، اور اس کے بعد ۱۸۷۲ء کو ہند میں اردو میں ہند میں چھپتی ہے۔’’الخطبات الاحمدیہ فی العرب و السیرۃ المحمدیہ‘‘ کے نام سے سر سید کی یہ کتاب اُن کے عشق رسول ؐ کا جیتا جاگتا ثبوت ضرور ہے ، البتہ مصنف کی یہ معرکتہ الآراء علمی کاوش بشری کمزور یوں سے مبرا نہیں ، کہیں کہیں اُن سے اپنی’’ تفسیرا لقران وھو الھدی الفرقان‘‘ کی مانند سیرت نگاری میں بھی ٹھوکریں لگتی ہیں ، جابجا افراط وتفریط بھی غلبہ پاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مذکورہ تالیف ا یک ایسی نابغہ ٔ روزگار ہستی کے رشحاتِ قلم کا نچوڑ ہے جو بقول حالیؔ مذہب کی آغوش میں پر ورش پاگئی اور جس نے مذہب ہی کی گود میں ہوش سنبھالا ، جس نے۱۸۳۹ء میں پیغمبر اسلام ؐ کے مختصر حالاتِ زندگی لکھے اور۱۸۹۸ء تک امہات المومینؓ کے بارے میں ایک پادری کی واہیات گوئی کے جوابات لکھتے لکھتے وفات پاجاتے ہیں، باوجود یکہ ایک مذہبی حلقہ ان کی زبردست مخالفت کر تا ہے انہیں شاہ عبدالعزیزؒ ، سیداحمد شہید ؒ ، شاہ اسمعٰیل شہیدؒ کے ساتھ بڑی عقیدت واردات ہے ۔ البتہ مخالف مذہبی حلقے کا شکوہ یہ نہیں کہ سید احمد مسلمانوں میں انگریزی تعلیم رائج کرنے کے داعی ہیں، قطعاً نہیں ۔ اگر معاملہ یہ ہوتا تو کیا شاہ عبدالعزیز ؒ یہ فتویٰ دیتے: جاؤ ، انگریزی کالجوں میں پڑھواور انگریزی زبان سیکھو، شرعاً ہر طرح جائز ہے( ’’اسباب ِ بغاوت ہند ‘‘ مصنفہ سر سید احمد خان ) ۔ پھر تو شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جامعۂ اسلامیہ کے خطبہ ٔافتتاحیہ میں یہ نہ فرماتے: آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کر نے پر کفر کا فتویٰ نہیںدیا( ’’موج کوثر ‘‘ شیخ محمد اکرام)۔ سر سید کے خلاف تکفیر وتفسیق کا اصل محرک ان کے جریدے’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں بعض ا یسے معاشرتی اور مذہبی معاملات میں اُن کا تجدد پسندانہ خیالات یا دخل در معقولات بنا جس پر علمائے وقت نے اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا ۔ شوق کا پنچھی عشق محمدیؐ میں سوختہ سرسید کے ان فارسی اشعار کو گنگنا رہاہے ؎
فلاطوں طفل کے باشد بہ یونانے کہ من دارم
مسیحا رشک مے آردزد رمانے کہ من دارم
خدادارم ولے بریاں زعشقِ مصطفیٰ ؐ دارم
ندارد ہیچ کافر ساز وسامانے کہ من دارم
زجبر یل ِامیں ؑقرآں بہ پیغامے نمے خواہم
ہمہ گفتار ِ معشوق است قرآنے کہ من دارم
فلک یک مطلعِ خورشید دارد باہمہ شوکت
ہزاراں ایں چنیں دارد گریبانے کہ من دارم
ز بُر ہاں تابہ ایماں سنگ ہاداردرہ ِ واعظ
ندارد ہیچ واعظ، ہمچو برہانے کہ من دارم
بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔