بھاجپا نے بھارت کی سب سے بڑی ریاست یوپی میں اپنی غیر معمولی انتخابی جیت کا پھر یرا لہرا کر صاف کیا کہ دوسال بعد ہونے والے پارلیمانی ا نتخابات میں سیاسی ہوا کا ممکنہ رُخ کیا ہوسکتا ہے ۔ آج تک روایت یہ رہی ہے کہ جس جماعت یا جماعتوں کے اتحاد نے اُترپردیش میں حکومت کی کمان سنبھال لی ، اکثر و بیشتروہی واحد پارٹی یا پارٹیوں کا گٹھ جوڑ مرکز میں سنگھاسن سنبھال لیتا ہے ۔اس لئے سیاسی مبصرین کی جچی تلی رائے ہے کہ یوپی کی جیت سے مودی اگلی ٹرم میں بھی وزارت عظمیٰ کی گدی سنبھالیں گے۔ آئندہ کیا ہو اس کی پیش بینی سے صرف ِ نظر کر تے ہوئے یہ حقیقت تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ مودی کے جادو نے بھاجپا کو پانچ میں سے چار ریاستوں کے اندر اقتدار پر براجمان ضرور کرایا ، مگر اسی کے ساتھ اس سیاسی منظر نامے میںسنگھ پریوار کے لئے اب زیادہ آزمائشوں کا دور بھی شروع ہوچکاہے ، بالخصوص یوپی میں چار کروڑمسلمانوں پر مشتمل آبادی کی نمائندگی اسمبلی یا بھاجپا حکومت میں کہیں دکھائی نہ دے تو معاملہ اور زیادہ گھمبیرتا اختیار کر تاہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی میں وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھائے جانے سے مسلم اقلیت میں کافی خوف اورڈر پایا جاتاہے کیونکہ نئے وزیراعلیٰ کی شبیہ مسلمانوں میں ایک شدید مسلم مخالف لیڈر کے طور پائی جاتی ہے۔ گو کہ وزیراعظم مودی نے پارٹی کی انتخابی کا میابیوں کے پس منظر میں یہ کہہ کرکہ جب درخت کو میوہ لگتا ہے تو وہ جھک جاتا ہے،ایک اچھا پیغام دیا مگرا س مثبت سوچ کو واقعی سیاسی پالیسیوں اور حکومتی اہداف میںبدلا جائے گا، اُس کی جانچ پرکھ کے لئے تاریخ کی آنکھ ہمہ و قت کھلی رہے گی ۔ بایں ہمہ بھاجپا نے اگر وکاس اور انصاف کے نعرے کو عملایا تو ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے اور تاریخ اس کے گن گائے گی، لیکن اس پارٹی کی اب تک کی تاریخ کوئی اور ہی داستان سرائی کر تی ہے ۔ مثلاً جب مودی مرکز میں برسر اقتدار آئے تو یکایک ملک میں عدم برداشت کی شدید لہر دوڑگئی، گھرواپسی اور گئو رکھشا کے نام پر مسلم ا قلیت کا جینا دشوار کیا گیا،سیکولرازم کی پرخچے اُڑ ائے گئے ، عدم برداشت کی آندھیاں چلتی رہیں ، ا یک جانب کرناٹک کے آزاد خیال نامور اسکالر ایم ایم گلبرگی کا دن دھاڑے قتل ہوا، دوسری جانب دادری یوپی میں اخلاق احمد نامی مسلمان کا ہندو بلوائیوں کے ہاتھ خونِ ناحق ، حیدرآباد میں دلت اسکالر روہت ویمولا کی خودکشی کا سنسنی خیز واقعہ ، جے این یو اور دلی یونیورسٹی پر اے بی وی پی کے حملے ، جے این یو کے ایک طالب علم نجیب کی پُر اسرار گمشدگی ، مسلم پرسنل لاء میں بے جا ردوبدل کی لن ترانیاں، گر مہر کور نامی طالبہ کے خلاف زبان درازیاں ، دفعہ ۳۷۰ کے بارے میں فسانہ تراشیاں اور ایسے ہی دوسری ناروا چیزوں سے بھاجپا کا اچھے دن لانے کا وعدہ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس ایک فسانہ اور ڈھکوسلہ ثابت ہوا۔اس صورت حال نے بجا طور پورے ملک کی ذہنی، فکری ، ثقافتی اور جمہوری قیادت کو مایوس کرکے رکھ دیا ہے، حتیٰ کہ عدم رواداری کو ریاستی سطح پر رواج ملنے پر کئی ایک سر کردہ شخصیات، ادیبوں ، لکھاریوں ، ماہرین ِ فن اور اعلیٰ پایہ دانش وروں نے مرکزکواحتجاجاً اپنے سندات اور تمغے تک واپس کئے۔ان کا مشترکہ گلہ یہ تھا کہ ملک میں دھارمک انتہا پسندی کو بلا روک ٹوک بڑھاوادیا جا رہاہے ، جمہوریت اور سیکولرازم کی بیخ کنی ہورہی ہے ، اقلیتوں کو ہراسان وپریشان کیا جا رہاہے ۔ زندہ ضمیر کی آواز پر یہ مضبوط قدم اُٹھانے سے نہ صرف یہ بات الم نشرح ہوئی کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے کے باوجود ملک میں انسانیت زندہ ہے بلکہ اہل ِدانش وبینش اور قوم کے خیرخواہوں نے کثرت میں وحدت اور گنگا جمنی تہذیب کے پلڑے میں اپنا سارا وزن ڈال کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ۔ بھاجپا نے اس مہذبانہ اسلوب ِ احتجاج کا کس حدتک اثر قبول کیا،اس پر تبصرہ آرائی سے گریز کر تے ہوئے یہ کہنا دُرست ہوگایہ پہلی بارنہیں ہو اکہ انصاف اور ناانصافی کے درمیان کشاکش کا میدان سجاہو بلکہ تاریخ عالم گواہ ہے کہ سقراط اور گلیلیو سے لے کر عصررواں تک جب جب زمانے کے جہل ِمرکب نے انصاف کا گلا کاٹا، خیالات کی اُڑان کو پر بریدہ کیا ، سوچ پر سنگینوں کے پہرے بٹھائے تب تب علم و بصیرت ، عقل وفہم اور صدق وصفا کے دلدادوں نے مزاحمت کی قندیلیں روشن کیں ۔ بہر صورت آج کی تاریخ میں بھاچپا یہ بات نظرانداز نہیں کرسکتی کہ اسے جو بھاری عوامی منڈیٹ ملا وہ ملک کی ترقی ، قوم کی خوش حالی ا ور عوام کے بنیادی مسائل حل کر نے کے نام پر ملا نہ کہ کسی طبقہ ٔ عوام کو سیاسی طور بے دست وپا کر نے یا کوئی شدت پسندانہ ایجنڈا روبہ عمل لانے کے لئے ۔ اس لئے تاریخ کا سفر اب بہ نظر غائر یہ تاڑتا رہے گا آیا بھاجپا حکمران عوام کے لئے سچ مچ اچھے دن لائے ، غربت اور محرومی کا کوئی مداوا کیا،عام آدمی کو گراں بازاری سے مکتی دلائی، بیماری ، بھوک اور ناخوانداگی کا کوئی موثر علاج کیا۔ اس حقیقت کے مدنظریہ کوئی دانائی نہ ہوگی کہ حکمران جماعت طاقت کے نشے میں بہک کر عوامی جذبات کی اَن سنی کرے، یہ بھی کوئی بہادری نہ ہوگی کہ اقلیتوں کی حق تلفیاں کی جائیں اور نہ یہ اس کے لئے کوئی نیک شگون ہوگا کہ یہ گڑھے مردے اُکھیڑ نے کا جوکھم اپنے سر لیں۔ سیاسی فہم وتدبر کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں اختلاف ِ رائے کا احترام کیا جائے اور جس کسی خیال یا اقدام سے دوسرے مکا تب ِفکر کی دل آزاری ہوتی ہو ، اس سے لازماًاجتناب برتا جائے ۔ مختصر اً حکومت کی تمام پالیسیاں تعصب اور ہٹ دھر می کی کو کھ سے نہیں بلکہ حقیقت پسندی اور وسیع تر عوامی مفادکے بطن سے جنم لینی چاہیے ۔ ایسے متوازن طرز عمل سے افہام وتفہیم اور صحت مند سلجھاؤ کی راہیں استوار ہو نے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مر کز کو علی ا لخصوص ملک میں پنپ رہی دھارمک انتہا پسندی کے اثرونفوذ کو روکناہوگا، اسے اقلیتوں خصوصاّ مسلمانوں ، دلتوں اور دیگر پچھڑے ہوئے لوگوں کو احساس ِتحفظ دینا ہوگا ، اسے دانش کدوں میں آزادی ٔ اظہار کی خوشگوار فضا پیدا کرناہوگی،اسے انسانیت کے بہی خواہ عناصر کو انسانی اقدارکے محافظ، سماجی انصاف کے پہرے دار ، جمہوریت کی ڈھال اور گنگا جمنی تہذیب کے نمائندے تسلیم کرکے ان کی مثبت اور مفید مطلب خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے، نہ کہ انہیں دُھتکارنا چاہیے۔ اس حوالے سے قوم کے بے باک اور انسانیت کے ہمدرد وبے لوث سپاہیو ں پر بھی یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ مخالفت برائے مخالفت کی بجائے متانت اور سنجید گی کے ساتھ قوم وملک کے تئیں اپنے فرائض اد اکر نے میں ذرا بھر بھی نہ چوکیں ۔ چاہے ان کے لئے حالات موافق ہوں یا ناموافق، وہ حق نوائی سے کام لیتے رہیں ، نیز جہاں بھاجپا کوئی اچھا کام کر تی ہے اس کی کشادہ دلی کے ساتھ سراہنا کریں اور جہاں حقائق کی بنیادپر اس پارٹی کے کام میں کوئی جھول یا شک وشبہ نظرآئے وہاں ڈنکے کی چوٹ پربقول غالب ؔ سچائی اور حق بیانی کر کے اس شعر کے عین مصداق بنیں ؎
لکھتے رہے جنوں میں حکایاتِ خونچکاں
؏ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے