انسانی معاشرہ میںسب سے اہم ترین کام تعلیم و تربیت ہے۔ تعلیم و تربیت کا مطلب ہے ایک انسان کو زندگی کا شعور بخشنا، مقصد حیات سمجھانا اور سماج کو درپیش مسائل کے حل میں آرا ء اور تجاویزپیش کرنا۔ جو معمار سیرت یہ کام اپنے کاندھوں پر لے وہی اُستاد کہلاتا ہے ۔ در حقیقت اُستاد ایک شمع کی مانند ہوتاہے جو خود جلتے جلتے چہار سُو نور افشانی کرتا رہتاہے، اسی مناسبت سے وہ اطمینان قلب اور سماج میں عزت و توقیر پاتا ہے۔ والدین کی شفقت بھری آغوش کے بعد بچہ مدرسہ کی آغوش میں اصل پرورش پاتا ہے اور یہ آغوش کہیں زیادہ وسیع ،دلکش اور پیاری ہوتی ہے۔اگرچہ ماں باپ بچے کو اللہ کے اذن سے جنم دیتے ہیں لیکن اُستادکی تربیت سے اُس کے لئے جہالت و لاعلمیت کے سمندر سے نجات دلانے والی کشتی ہوتی ہے جو اسے ساحل ِمراد تک پہنچادیتی ہے ۔اس کے ہاں سے نہ صرف بچے کو لاڑپیار ملتا ہے بلکہ زندگی کو درکار علوم و فنون سے آگاہی ملتی ہے بلکہ اس کا نورِ الٰہی سے بھی روشن ہو جاتا ہے۔کسی بھی اسکول میں داخلہ لیتے وقت بچے کی حالت ایک اَن لکھے سلیٹ کی مانند ہوتی ہے ، مگر یہ اُستادکی شفقت آمیز درس و تدریس کا سلسلہ ہوتا ہے جو اُسی نونہال کو ایسی سوچ ا ور شخصیت عطا کرتا ہے جو اسے جینے کے قابل بناتا ہے۔ اگر خشت اول سے ہی اُسے صحیح نہج اور اچھی طرز پر تعلیم و تربیت مل جائے تو یہ لازماً اُس کی ترقی کا زینہ بن جاتی ہے۔ معلم کا روزِ اول سے ہی یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ شاگرد کے اندر تعلیمی روح پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سنجیدہ معلم محنت ، لگن اور محبت و شفقت سے لیس ہوکرطالبِ علم کے اندر حقیقت کی جستجو بڑھاتا رہتا ہے اور اسے نورِ علم سے منور کرنے میں شب و روز فکر مند رہتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بسااوقات اُسے اپنے بچوں کی فکر سے زیادہ ان بچوں کی فکر رہتی ہے جو اس کے یہاں درس و تدریس کے مراحل سے گذر رہے ہوں۔ یہ ا سی وقت ممکن ہے جب معلم کے اندر اپنے پیشے کے متعلق ایک مستحکم تڑپ موجزن ہو۔ ۔۔ایسی تڑپ جو معلم کو احساس دلائے کہ قوم کے نونہال اس کے پاس قوم وملت کی امانت ہیں ۔ بے شک وہی کامیاب استاد کا اعزاز پاسکتا ہے جوہمیشہ اسکول کو ایک گلستان تصو کرے اور خود کو مالی جان لے، باغ کی صحیح نشوونما کرتارہے، باغ کے ہر گل کو نکھارنے میں مصروف رہے ، اپنے شاگردوں کے بہترین مستقبل کی فکر قلب و ذہن میں ہمیشہ حاوی رکھے، لیکن آج کے اس مادی دور میں والدین کی کثیر تعداد اساتذہ برادری کے تئیںنالاں دکھائی د ے رہی ہے اور ان کا گلہ شکوہ علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے ؎
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دیتے ہیں خاکبازی کا
ہاں! والدین کا یہ گلہ شکوہ بجا بھی ہوسکتاہے لیکن ساری ذمہ داری استاد کے سر ڈال دی جائے شایدناانصافی ہوگی ، ہمیں والدین کی اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کا بھی سنجیدگی سے ادراک کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرنے کی بھی از حد ضرورت ہے۔ اُستاد کو بھی اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کا فہم ہو نا چاہیے ۔ تعلیمی نظام میں نئی روح پھونکنے کے لئے اساتذہ کی فعالیت ، حکام کی جدت طرازیاں اور والدین کی کاوشیں لازم وملزوم ہیں ۔ محکمہ تعلیم بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں اسکولی نصاب کو موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق مرتب کرنے کی ضرورت محسوس کر نی چاہیے ہو رہی ہے۔غرض ہم سب کو مل کر تعلیمی نظام کو بہترین ڈگر پر لانے اور بچوں کی شخصیت سازی کیلئے اپنی اپنی کاوشیں کرنی چاہیں۔ ہر استاد کو بھی اس بات کا احساس کر نا ہوگا کہ استادی ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے اور اپنے کام سے انصاف کر کے ہی ایک استاد سماج میں عزت و آبرو بھی پاسکتا ہے ا ور خالق کا ئنات کی رضا بھی حاصل کر نے کا اُمیدوار ہو سکتا ہے ۔
رابطہ :ہائر اسکنڈری اسکول نوگام
فون نمبر9858431181