اسلام آباد(اننت ناگ)//فوج نے بھلے ہی پتھری بل فرضی جھڑپ کا کیس بند کردیا ہولیکن متاثرین ابھی بھی ہمت نہیںہار چکے ہیں بلکہ 17سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ اس واقعہ کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سانحہ کی 17ویں برسی کے موقعہ پرجمعہ کو متاثرہ خاندان فرضی جھڑپ میں مارے گئے5شہریوں اور اسکے بعد براکہ پورہ میں پر امن 8شہریوں کو ہلاک کرنے کی یاد میں براری آنگن شانگس میں مل رہے ہیں۔ اس سانحہ کے ایک اہم گواہ اور رشید خان نے کہا”” فوج نے بھلے ہی اپنے افسروں کو جو اس واقعہ میں ملوث تھے، کو کلین چٹ دی ہولیکن ہم انصاف کیلئے لڑتے رہیں گے“۔رشید خان کا باپ جمہ خان ساکن براری آنگن پیشے سے مزدور تھا اورفرضی جھڑپ میں مارے گئے اُن عام شہریوں میں سے ایک تھا جنہیں فوج نے جنگجو جتلایا تھا۔ جمہ خان کا معاملہ 5 مارے گئے شہریوں کے معاملے سے اس وجہ سے بھی منفرد ہے کیونکہ اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد اُس کا چھوٹا بیٹا رفیق احمد خان، جس کی عمر 16 سال تھی، 3 اپریل کو 2000ءکو اس واقعہ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے براکہ پورہ کے نزدیک پولیس ٹاسک فورس کے ہاتھوں اندھا دھند فائرنگ میںمارا گیا تھا۔رشید نے کہا” ان ہلاکتوں نے ہمارے دلوں پر جو زخم لگائے ہیں وہ15 سال گزرنے کے باوجود اب بھی تازہ ہیں“۔انہوں نے کہا”ان 15سال کے دوران ہمیں جن ذہنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، وہ ناقابل بیان ہے“۔خان کے مطابق اگرچہ فوج کی طرف سے یہ کیس بند کرنے کے بعد وہ کافی مایوس ہوچکے ہیں لیکن اُن کیلئے یہ فیصلہ کوئی حیرانگی کا معاملہ بھی نہیں تھا کیونکہ اُن(فوج) سے امید ہی یہی تھی۔ خان نے سوالیہ انداز میں کہا”آپ اُن سے انصاف کی امید کیا کریں گے جو اس جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں لیکن تب بھی ہم ہمت ہارنے والے نہیں ہیں“۔انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ۔انہوں نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سے بھی اس سلسلے میں مداخلت کی اپیل کی۔خان نے کہا”اُن کی اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں نے مجرموں کے خلاف فرد جرم عائد کیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں انصاف فراہم کرکے ہمارے زخموں کو بھرا جاسکتا ہے یا نہیں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج اپنے عزیز وں کو یاد کررہے ہیں اور فوج کو یہ باور کرنا چاہیں گے کہ ’ہم اس سانحہ میں مارے گئے افراد کو نہیں بھولے ہیں اسلئے ہم دعائیہ مجلس کا اہتمام کررہے ہیں ‘۔خان کا کہنا تھا”فوج نے بھلے ہی دامن چھڑالیا ہو لیکن یہ ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اورحقیقت سے سب واقف ہیں“۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان کالی پٹیاں باندھ کرہاتھوں میں پلے کارڈ لیکر فوج کے خلاف احتجاج کریں گے۔واضح رہے کہ فوج نے25مارچ2000کو پانچ شہریوں کو چھٹی سنگھ پورہ قتل عام میں ملوث ٹھہرا کر غیر ملکی جنگجو جتلاکرجاں بحق کیا تھا لیکن لوگوں نے فوج کے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ پانچوں مقامی شہری ہیں ،جس کے بعد زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور براکپورہ میں انہی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر نے والے لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے مزید 8 لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور میں ہوئی ان شہری ہلاکتوں کے خلاف زور دار احتجاجی مظاہرے کئے گئے تھے جس کے بعد سخت عوامی دباو¿ کے نتیجے میں جاں بحق کئے گئے 5نوجوانوں کی نعشوں کو قبروں سے باہر نکالا گیا اور ان کی شناخت سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جنگجو یا جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔ مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے اپنی ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ واضح کیا کہ 25مارچ 2000کو پتھری بل اننت ناگ میں فوج کی 7راشٹریہ رائفل اور جموں و کشمیر پولیس کی مشترکہ کارروائی میں جو 5کشمیری مارے گئے تھے وہ سبھی معصوم اور بے گناہ شہری تھے۔ سی بی آئی نے اپنی تحقیقات میں ریاستی پولیس کے اس وقت ایس ایس پی اننت ناگ فارو ق خان کے علاوہ دیگر کئی پولیس افسروں کی طرف بھی انگلی اٹھائی۔ سی بی آئی کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے بعد شہری ہلاکتوں کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی مرتب کی گئی جس میں سی بی آئی نے فوج کے کئی سینئر افسروں کو بھی ملزمان کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ سانحہ پتھری بل کا معاملہ ریاستی ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک بھی پہنچا جبکہ عدالت عظمیٰ میں بھی سی بی آئی اپنے اس موقف پر کاربند رہی کہ پتھری بل میں 5معصوم شہریوں کی ہلاکت میں فوج ملوث ہے کیونکہ وہاں فرضی جھڑپ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ فوج کے قانونی مشیر اس بات میں کامیاب ہوگئے کہ پتھری بل شہری ہلاکتوں کا معاملہ فوج نے اپنی تحویل میں لیا اور اس سلسلے میں فوجی عدالت نے اپنی طرف سے معاملے کی سماعت شروع کر دی تاہم اس حساس ترین معاملے کی سماعت ادھم پور میں قائم فوج کی شمالی کمان کے ہیڈ کوارٹر میں رکھی گئی ۔ پتھری بل سانحہ نے جنوری 2014میں اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب فوجی عدالت نے 5شہریوں کی ہلاکت میں ملوث تمام فوجی افسران کو کلین چٹ دیتے ہوئے کیس کی فائل اور سماعت بند کر دی۔