سرینگر//حریت (گ)چیئرمین سید علی گیلانی بدستور نظربند ہیں جبکہ حریت جنرل سیکریٹری شبیر احمد شاہ، تحریک حریت جنرل سیکریٹری محمد اشرف صحرائی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، الطاف احمد شاہ، راجہ معراج الدین اور محمد اشرف لایا بھی اپنے اپنے گھروں میں مسلسل مقید رہے اور پولیس نے انہیں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ حریت(گ) نے حکومتی کارروائی کو ریاستی ظلم و ستم اور مداخلت فی الدین کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں لوگوں کے سیاسی اور مذہبی حقوق بے دریغ سلب کئے جارہے ہیں اور ریاست کو عملاً ایک بڑے قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ حریت (گ) نے میر واعظ عمر فاروق کی گھر میں اور محمد یٰسین ملک کی جیل میں نظربندی جبکہ محمد یوسف میر، سید امتیاز حیدر اور محبوس محمد امین پرے شوپیان کے بھائی کی گرفتاری کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ گیلانی کو 2010 سے عملاً بغیر اعلان عمر قید کی سزائی سُنائی گئی ہے اور حکومت نے انہیں زندگی بھر رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نظربندی کے لیے نہ عدالت کی طرف سے کوئی فیصلہ آگیا ہے اور نہ ریاستی انتظامیہ کی طرف سے آج تک کوئی تحریری حکمنامہ جاری ہوا ہے کہ پتہ چلتا گیلانی کو قانون کی کس دفعہ اور کس شق کے تحت پابندِ سلاسل رکھا گیا ہے اور اس قید کی کتنی مدّت طے کی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ گیلانی کی گھر میں نظربندی کو اگرچہ جموں کشمیر کی ہائی کورٹ نے بھی غیر قانونی اور بلاجواز ٹھہرایا ہے، البتہ پولیس عدالتی فیصلے کو کسی خاطر میں نہیں لارہی ہے اور 87سالہ گیلانی کی سرگرمیوں پر تسلسل کے ساتھ قدغن جاری ہے۔ ترجمان کے مطابق جب سے ریاست میں الیکشن کا بگل بجایا گیا ہے پولیس نے نہ صرف حریت (گ) اور تحریک حریت کی جُملہ ٹاپ لیڈرشپ کو بھی حراست میں رکھا ہے، بلکہ شہروگائوں میں نوجوانوں کی گرفتاری کا ایک تازہ اور زوردار سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ جنوبی کشمیر کے متعدد دیہات سے سینکڑوں نوجوان گرفتار کئے گئے ہیں، جن میں ایک اچھی خاصی تعداد تحریک حریت سے وابستہ کارکنوں کی ہے۔ پلوامہ، شوپیان، کولگام اور اسلام آباد (اننت ناگ) میں نہ صرف پولیس کی طرف سے چھاپہ مار کارروائیاں شروع کی گئی ہیں، بلکہ فوج نے بھی ہر گاؤں اور ہر دیہات میں گشت لگانا اور لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کیا ہے۔ بیان کے مطابق سرینگر کے اندرونی اور مضافاتی علاقوں میں بھی تلاشیوں اور چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہاں سے بھی درجنوں نوجوانوں کو حراست میں لیکر مختلف پولیس تھانوں میں بند رکھا گیا ہے۔