کاشانۂ افرنگ کے فانوس ہیں ساحر
اے بندۂ مشرق تری مٹی ہے ابھی نم
گرجائے جو اسمیں تو پھر گرتا ہی رہیگا
کیا قعرِ مذلت ہے یہ مغرب کا زیروبم
راس آئیگی تجھ کو نہ یہ تہذیب معاصر
ہے تیرے خیالوں کی نمو کیلئےیہ سَم
باشندۂ مشرق کو ہے سردی ہی مناسب
جچتا نہیں تیرے لئے گرمی کا یہ موسم
تقلید زمانے کی روش کی نہیں اچھی
بہتر ہے تری ذات کو اسلاف کا پرچم
آئے گا ترا دور اس تاریک جہاں میں
عاجز نہ پریشان ہو ، کچھ دیر ذرا تھم
تسنیم الرحمان حامیؔ
متعلم کشمیر یونیورسٹی شعبۂ انجینیرنگ
9419666642