وادی کی د واہم پارلیمانی نشتوں سرینگر اور اننت ناگ کے لئے انتخابات کی تاریخ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ نزدیک آتی جارہی ہے لیکن انتخابی سرگرمیوں کا روایتی شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی مکمل طور پر منظر سے غائب ہے اور اگر انتخابی میدان میں موجود اُمیدواروں کی درون پھاٹک سرگرمیوں کا عمل میڈیا کے توسط سے عوام تک نہ پہنچے تو شاید ہی یہ لگے کہ اس خطہ ٔ ارضی کا ایک بڑا حصہ انتخابی عمل سے گزر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ گزشتہ موسم گرما پر محیط ہمہ گیر ایجی ٹیشن اور اسکے ما بعد پیش آئے واقعات کے ہوتے ہوئے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو بھی غالباً اس بات کا اندازہ رہا ہوگا موجودہ انتخابی عمل کا گردوغبار اس قدر گہرا نہیں ہوگا کہ وہ گزشتہ برس کے دوران اُبھرآئے منظر نامے کو دھند لا سکے۔ یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ حکومت نے ان دونوں حلقوں کے طول و عرض میں شبانہ چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس کے دوران اب تک دو سو کے قریب نوجوانوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل بنا دیا گیا ہے۔ یہ مزاحتی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کارکنوں کے علاوہ ہے جو گزشتہ برس سے کہیں وقفے وقفے سے اور کہیں مسلسل قید وبند کی صعوبتوں کی نذر ہوئے ہیں ، حتاکہ کئی ایک پر دو دو تین تین بار پبلک سیفٹی ایکٹ عائدکیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کی جانب سے آئے روز انتخابی عمل میں لوگوں کی شرکت کو مزاحمتی تحریک کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن کیا انتخابات اسی طرح سے ہوتے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے جو ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں اُبھرتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انتخابات عوام کی شرکت سے منسلک ایک عمل ہے اور لگتا ہے کہ حکومت نے ہمہ گیر گرفتاریاں عمل میں لاکر رائے دہی میں لوگوں کی شرکت کے لئے ماحول تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن بادی النظر میں ہی داروگیرکے اس عمل سے خوف ودہشت کی ایک بھیانک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ کیا ایسی صورتحال سے رائے دہی کے عمل، جو جمہوریت کا بنیادی ستون ماناجاتا ہے، کو تقویت مل سکتی ہے؟ دنیا کے کسی بھی خطہ میں یہ دلیل تسلیم کرنے کےلئے شاید ہی کوئی تیار ہو۔ فی الوقت بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ریاست جموںوکشمیر کے دنوں حصوں میں عوام کو حاصل جمہوری حقوق کے حوالے سے ایک دوسرے پر طعن و تشینع اور الزام تراشیوں کے تیروں کی بارش ہو رہی ہے، ایسے حالات میں وادی کے طول و عرض میں داروگیر کی فضاء قائم کرنے سے صورتحال کو سنبھالا ملنے کاکوئی امکان نہیں۔ماضی میں بھی مختلف حوالوں سے یہ طریقہ ٔ کار آزما یا گیا ہے، لیکن بالآخر اسکے نہایت ہی نقصان دہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ کہنا غالباً غلط نہیں ہوگا کشمیریوں کی مزید ایک نسل عملی طو پر سیاسی تصادم آرائی کی نذر ہو رہی ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح70اور 90کی دہائیوں میں۔ یہ ایک خطرناک صورحال ہے، جو مستقبل کے حوالے سے نہایت ہی تشویشناک ہو سکتی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت، کہ جسے عوامی اعتماد کا دعویٰ ہے، کو چاہئے کہ وہ سیاسی معیشت کو فروغ دینے کے عمل کی مرتکب ہونے کی بجائے عوامی معاملات عوام پر چھوڑ دے کہ وہ انتخابی عمل کے تئیں کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا شبانہ چھاپہ ماری اور داروگیر کے اس عمل پہ فوراً روک لگانےکی ضرورت ہے۔