جموں // پولیس اہلکاروں اور پولیس شہدأکے کنبوں کیلئے مزید سہولیات فراہم کرنے کیلئے پولیس ہیڈ کوارٹر نے تبادلہ خیال شروع کیا ہے تاکہ موجودہ بہبودی سکیموں پر نظرثانی کی جاسکے۔ان باتوں کا اظہار ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر ایس پی وید نے یہاں ریاستی سطح کی ایگزیکٹیو اور پولیس پریوار کی منیجنگ کمیٹی کی میٹنگ کی صدارت کے دورا ن کیا۔ یہ میٹنگ پولیس پبلک سکولوں اور پولیس ہسپتالوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے طلب کی گئی تھی۔حالیہ برسوں کے دوران پولیس اہلکاروں کے لئے متعارف کی گئی بہبودی سکیموں پر تبادلہ خیال کے دوران ڈاکٹر وید نے کہاکہ پولیس کے تمام اداروں اور سکولوں کی بہتری پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔انہوںنے کہا کہ جموں وکشمیر پولیس لوگوں کی بہبود اور پولیس شہدأ کے کنبوں کی بہتری اور ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ڈی جی پی نے پولیس پبلک سکولوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کے ممبران سے تجاویز طلب کیں۔ انہوںنے کہا کہ سکولوں کا معیار بلند کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔سرینگرا ور جموںمیں قائم پولیس ہسپتالوں کے کام کاج کا جائزہ لینے کے دوران ڈاکٹر وید نے کہا کہ ان ہسپتالوں کو جدید آلات سے لیس کیا گیا ہے تاکہ پولیس اہلکاروں اور ان کے کنبوں کو جدید طبی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔پولیس ہسپتالوں میں پردھان منتری جن اوشدھی کیندر کھولنے پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔ پولیس پریوار فنڈ کی صورتحال پر بحث و تمحیص کے دوران ڈی جی پی نے کہا کہ یہ فنڈ پولیس اہلکاروں کے کنبوں اور شہدأ کے لواحقین کو راحت پہنچانے کی غرض سے شروع کیا گیا ہے۔انہوںنے کہا کہ اس سلسلے میں مزید اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔میٹنگ میں دیگر کئی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جن میں پولیس اہلکاروں کے لئے ہیلتھ انشورنس پالیسی اور دیگر کئی سکیمیں متعارف کرنا شامل ہے۔میٹنگ میں موجود جے اینڈکے پولیس وائیوز ویلفیئر ایسو سی ایشن کی چیئرپرسن بھارتی وید نے پولیس پریوار فنڈ میں بہتری کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں۔اس سے قبل اے آئی جی ویلفیئر راہل ملک نے پاور پوائنٹ پرزنٹیشن کے ذریعے پولیس اداروں کی کارکردگی کا تفصیلی خاکہ پیش کیا۔میٹنگ میں اے ڈی جی پیز دل باغ سنگھ ، ایل موہنتی ، اے کے چودھری ، اے آئی جی پیز ایس ڈی سنگھ ، سنیل کمار ، دانش رینہ ،ایس ایل شرما ، ایس اے وٹالی ، جے پی سنگھ اور ایس کے گپتا کے علاوہ پولیس کے کئی دیگر افسران موجود تھے۔