نوجوان نسل میں منشیات کے استعمال کا رجحان انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتاجارہاہے اور اس بات کی اطلاعات ہیں کہ نہ صرف نوجوان لڑکے بلکہ کچھ لڑکیاں بھی اس ناسور کا شکار پائی جارہی ہیں ۔اس وبا کا توڑ کرنے کیلئے اگرچہ ریاست بھر میں پولیس منشیات مخالف مہم بھی چلارہی ہے لیکن یہ مہم اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں دکھ رہی ہے کیونکہ اس لعنت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اور اب تو ادویہ ساز بھی منشیات کاکاروبار کرتے ہوئے پائے جانے لگے ہیں ۔حال ہی میںپہلے مینڈھر سے دوائیوں کاکاروبار کرنے والے ایک دکاندار کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیاگیا اور اب گزشتہ روز سرنکوٹ سے بھی اسی کاروبار سے جڑے ایک دکاندار کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیاہے ۔پولیس کے مطابق راجوری میں بھی ایک دکاندار کا نام منشیات فروشی کے حوالے سے گردش کررہاہے ۔خطے میں منشیات کے بڑھتے رجحان اور اس میںدوائیوں کاکاروبار کرنے والے دکانداروں کی شمولیت کو دیکھتے ہوئے پولیس نے دکانداروںسے میٹنگیں بھی کی ہیں اور انہیںاس بات کاانتباہ بھی دیاہے کہ وہ خلاف قانون کام نہ کریں اور نوجوان نسل کو تباہ ہونے سے بچانے میں مد ددیں ۔خطہ پیر پنچال کی طرح ہی یہ کاروبار خطہ چناب اور جموں میں خوب چل رہاہے اور آئے روز ایسی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں پولیس کارروائی کے دوران منشیات فروشوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہو ۔چوری چھپے تو یہ کاروبار کافی دیر سے چلاآرہاہے تاہم اس میں دوا فروشوں کا ملوث پایا جانا انتہائی تشویشناک بات ہے۔ایک مہینے کے اندر دو دکانداروں کی گرفتاری سے یہ بات ظاہرہوئی ہے کہمنشیات کی فروخت اور فراہمی کا ایک مربوط گٹھ جوڑ (Nexus) موجود ہے،جس کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال میں پچھلے سال کچھ نوجوانوں کی پراسرار طور پر اموات ہوئیں اور امکان یہی ظاہر کیا جا رہا تھاکہ ان اموات کی وجہ منشیات ہی تھی ۔حکام کے مطابق اس وقت ریاست بھر میں لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس وبا میں ملوث ہیں اور ان میںان نوجوانوں کی بھی کافی بڑی تعداد شامل ہے جو سماج کے اچھے گھرانوںسے تعلق رکھتے ہیں ۔ریاست بھر میں منشیات کی وبا نے سماج کو کھوکھلا کردیا ہے اور سب سے زیادہ فکر مند بات یہ ہے کہ اس میں روز بروز اضافہ ہورہاہے اور چھوٹے چھوٹے لڑکے بھی اس ناسور کا شکار ہورہے ہیں ۔اس حوالے سے سماجی اور ملی تنظیموں کی طرف سے مہم بھی چلائی جارہی ہے لیکن اس سے ابھی تک کوئی فائدہ ہوتانظرنہیں آیا جس کی وجہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔شراب نوشی کی ہی طرح یہ بھی ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جس سے سماجی اقدار پامال ہورہی ہیں اور نوجوان نسل تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔یہ دنیا بھر میں ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ منشیات کا کاروبار ایک معیشت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، جس میں اس غلط کام کے ذریعہ دولت اکٹھا کرنے والوں کے ایسے گروہ ملوث ہیں جو سماجی سطح پر اور انتظامی و سیاسی سطح پر کافی فعال اور با اثر ہوتے ہیں، بلکہ کئی ممالک میں انکے طاقتور مافیا ملکی پالیساں تشکیل دیتے ہیں۔ یہاں اگر چہ صورتحال اس قدر گھمبیر نہیں ہے لیکن ہمسایہ ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کا حال ہمارے سماجی و سیاسی ذمہ داروں کےلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ اس مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ان ہاتھوں کا پتہ لگایا جائے جو اس خطرناک مواد کو تیار کرتے ہیں اور پھر آگے فروخت کررہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہماری نئی نسل زندگی بھر کےلئے اس مصیبت میں مبتلاء ہو کر سماجی تانے بانے کو بکھر کر رکھ دینے کا سبب بن جائے، حکام خاص کر محکمہ پولیس کو یہ وباء ختم کرنے کے لئے ایسی ہمہ گیر مہم چلانی چاہئے۔ جس کے زمینی سطح پر نتائج نظر آئیں نہ کہ محض میڈیا میں۔