بیجنگ //چین نے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں نئی پابندیاں متعارف کروائی ہیں جنھیں اسلامی انتہاپسندی کے خلاف مہم کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات میں ’غیرفطری‘ طور پر لمبی داڑھیاں رکھنے، عوامی مقامات پر پردہ کرنے اور سرکاری ٹی وی دیکھنے سے انکار پر پابندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔سنکیانگ اویغور نسل کا آبائی گھر ہے جو روایتی طور پر مسلمان ہیں اوران کا کہنا ہے کہ وہ امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔حالیہ برسوں میں علاقے میں خونی جھڑپیں بھی دیکھی گئی ہیں۔چین کی حکومت پرتشدد واقعات کا ذمہ دار مسلمان شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کو قرار دیتی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شورش جابرانہ پالیسیوں کا ردعمل ہے، اور نئے اقدامات اویغور لوگوں کو شدت پسندی کی جانب مزید دھکیل سکتے ہیں۔اگرچہ سنکیانگ میں اسی طرح کی پابندیاں پہلے بھی نافذ تھی لیکن اب نھیں قانونی طور پر لاگو کر دیا گیا ہے۔سنکیانگ اویغور نسل کا آبائی گھر ہے جو روایتی طور پر مسلمان ہیں۔خبررساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے نئے قوانین کے مطابق درج ذیل اقدامات پر پابندی ہوگی۔بچوں کو سرکاری اسکول میں بھیجنے کی اجازت نہ دینا۔خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہ کرنا۔قانونی دستاویزات کو جان بوجھ کر ضائع کرنا۔صرف مذہبی طریقے کے مطابق شادی کرنا۔قوانین کے مطابق پورے جسم کے پردے بشمول چہرے کا نقاب کرنے والوں کو ملازمین عوامی مقامات جیسے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں میں داخل ہونے سے ’منع کریں‘ گے اور ان کے بارے میں پولیس کو مطلع کریں گے۔یہ پابندیاں سنکیانگ کے قانون سازوں نے منظور کیا ہے اور علاقے کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں۔اس سے قبل چینی حکام کی جانب سے اویغوروں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی عائد کرنے جیسے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔سنکیانگ میں اویغوروں کی آبادی کا 45 فیصد اور ہن چینیوں 40 فیصد ہیں۔چین نے مشرقی ترکستان کی ریاست ختم کرتے ہوئے 1949 میں اس پر اپنا دوبادہ قبضہ حاصل کر لیا تھا۔اس کے بعد سے بڑی تعداد میں یہاں ہن چینیوں کی نقل مکانی ہوئی ہے۔اویغوروں کا خدشہ ہے کہ ان کی روایات اور ثقافت ختم ہوجائے گی۔