حکام کی مجرمانہ نوعیت کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جموں شہر اور اطراف و اکناف میں چلنے والے آٹو رکھشا مالکان نے کرایہ کے نام پر لوٹ مچارکھی ہے کرایہ نہ ہی میٹر کی ریڈنگ کے مطابق اور نہ ہی مقررہ شرح پر لیاجاتاہے بلکہ من مرضی کی وصولی کرکے مسافروں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔اگرچہ کشمیرکے ریجنل ٹرانسپورٹ افسر نے حال ہی میںاس سلسلے میں اقدامات کرتے ہوئے کرایہ کی شرح از سر نو مرتب کرکے خلاف ورزی کرنیوالوں کو متنبہہ کیا ہے لیکن جموں میں ٹرانسپورٹ حکام غفلت کی نیند سورہے ہیں ۔واضح رہے کہ کشمیر کے ریجنل ٹرانسپورٹ افسر نے تھری ویلر مسافر آٹو رکھشاکے لئے کرایہ سے متعلق شرحوں کا اعلان کیاہے جس کے مطابق پہلے ایک کلو میٹر کیلئے 17روپے اوراس کے بعد فی کلو میٹر کیلئے 13روپے کا کرایہ مقرر کیاگیاہے ۔اسی طرح ویٹنگ چارجز کے لئے فی گھنٹہ 25روپے ہوںگے ۔ 25کلو گرام وزن پر کوئی اضافی کرایہ نہیں لیاجائے گاجبکہ اس کے بعد پورے کرایہ کے تحت اضافی وزن پر 25فیصد کے حساب سے کرایہ وصول کیاجاسکتاہے ۔اس کے برعکس جموںمیں صورتحال بالکل مختلف ہے اور یہاں وہی کرایہ وصول کیاجاتاہے جو آٹو رکھشامالکان کی منہ مانگی بولی ہوتی ہے ۔اول تو میٹر کا استعمال کیا ہی نہیں جاتا ارو اگر کہیں کیا بھی جاتا ہے تو کرائے کی وصولی زیادہ تر مسافروں کی مجبوری اور وقت کو دیکھ کر ہوتی ہے ۔ اگر کوئی مسافر مجبور دکھائی دے رہاہے تو اس سے ایک کلو میٹر کے لئے 100روپے تک کرایہ لینے سے بھی احتراز نہیں کیا جاتااور اگر اسی طرح سے صبح یاشام کے اوقات میں کسی کو کہیں جاناہے تو اس کی مجبوری کا فائدہ بھی خوب اٹھایاجاتاہے ۔چونکہ آٹو رکھشاوالوں میں آپسی تال میل ہوتاہے لہٰذا کسی کا اعتراض کام نہیں آتا کیونکہ اس کے پاس کم کرایہ پر سفر کرنے کا متبادل نہیںرہ جاتا اور اسے مجبوراًمنہ مانگی رقم ادا کرناپڑتی ہے ۔یوںجس طرح سے جموں سے سرینگر اور سرینگر سے جموں آنے جانے والے مسافروں کیلئے کوئی کرایہ متعین نہیں اسی طرح سے جموں میںچلنے والے آٹو رکھشاوالے بھی آزاد ہیں ۔جموںمیں غالباًآخری مرتبہ 2012میں آٹو رکھشائوں کیلئے کرایہ متعین کیاگیاتھا جس کے بعد نہ ہی اس کی تجدید کی گئی اور نہ ہی اپنے فیصلے پر حکام نے عمل درآمد کرانے کی زحمت بھی گوارہ کی ۔2012کے حکمنامے کے مطابق پہلے ایک کلو میٹر کیلئے 16روپے اوراس کے بعد فی کلو میٹر کیلئے 12روپے مقرر کئے گئے تاہم بدقسمتی سے اس پرکبھی بھی کسی نے عمل نہیں کیا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آٹو رکھشاوالے بھی اپنا پیٹ پالنے کے لئے ہی محنت کررہے ہیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ مسافروں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹتے رہیں اور ان کی کی زیادتیوں پر نظر رکھنےوالا بھی کوئی نہ ہو ۔ ایسی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں ٹریفک کا نظام ناقابل اعتماد ہو کر رہ گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عام طور پر آٹو رکھشاوالے غریب اور دوردراز علاقوںکے لوگوں کی مجبوری کا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی نظر ان کی جیب خالی کرنے پر لگی ہوتی ہے ۔ جموں شہر میں زیادہ تر باہر کے لوگ ہی اس سروس کا استعمال کرتے ہیں، جن میں سے اکثر بیماروں کا علاج کرانے کےلئے یا دیگر مجبوریوں کے بہ سبب شہر آئے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں اس لوٹ پاٹ کی وجہ سے اُن کے مشکلات اور مصائب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر وقت پر نہ پہنچیں تو کام نہیں نکلتا ہے، لہٰذا وہ اس من مانی کا شکار بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ضرورت اس بات ہے کہ اس نظام کو قابل اعتماد بنایاجائے اور فوری طور پر کرایہ کی شرح کی متعین کرکے ڈرائیوروںکو اس کا پابند بنایاجائے ۔حکام کی طرف سے ڈرائیوروںکو اتنی بھی آزادی نہیںہونی چاہئے کہ وہ صبح شام مسافروں کولوٹتے رہیں اور من مرضی سے کرایہ وصول کرتے رہیں ۔