یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے یا اس کی ایک مسخ شدہ تصویر ہے کہ ایک عام انسان کی زندگی جتنی مختصر اور قلیل ہوتی ہے، اُس سے کہیں زیادہ وہ دنیا بنانے اور سنوارنے میںمشغول رہتا ہے ۔ نت نئی خواہشوں،تمنائوں،آرزئوں اور بہتر مستقبل کے منصوبوں کے پیچھے بے تحاشا دوڑتا رہتا ہے ۔ اسی اندھی دوڑ میں زندگی کی شام ہوجاتی ہے اور مایوسی کے عالم میں اُسے اپنوں سے جدا ہوناپڑتا ہے۔اس کے برعکس جو لوگ دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی بروقت سمجھ کر اپنے اصل مقصد حیات سے آشنا ہوجاتے ہیں، وہ فانی دنیا کے پیچھے دوڑنے کی حماقت نہیں کرتے اور بالآخر ہونٹوں پر اطمینان بھرا تبسم پھیلائے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ہاں ! یہ بات بھی دُرست ہے کہ گاہے گاہے ہوش مند لوگ بھی غفلتوں میں پڑکر دنیا کی چھوٹی بڑی لغزشوں سے خود کو بچانہیںپاتے ، وجہ شاید یہ ہے کہ بنیادی طور بنی آدم اُس خمیر سے اُٹھاہوا ہے جس میں فراموشی کی دھول بھی شامل ہے ۔اسی مناسبت سے انسان بشر ٹھہرتاہے۔ بشری کمزوریوںا ور خامیوں کے باوجود جو خوش نصیب لوگ جلداز جلد سنبھل جاتے ہیں وہ منزل ِ مرادپانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔۔۔ خیر اپنے عمرہ کے حوالے سے یہ محسوسات اور مشاہدات لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ حال ہی میں راقم کو جب اللہ کی خاص عنایت سے خانہ کعبہ اور مدینتہ النبی صلی ا للہ علیہ و سلم پر حاضری دینے کا موقع نصیب ہوا تو یہی لگا کہ ان حاضر یوںمیں کافی دیر ہوئی ہے ۔ اس بات کا بے حد افسوس ہوا کہ کاش کم از کم سات آٹھ سال قبل اس جانب میرا دھیان گیا ہوتا جب آج کی نسبت تندرست و توانا تھا ۔ راقم ایک زمانے میں کوہ پیمائی کا بے حد شوقین تھا ، پہاڑوں کی اونچی اونچی چوٹیاں دیوانہ وار چڑھا کرتا لیکن آج بے پناہ شوق کے باوجود غار ِحرا کی نوربیزپہاڑی پر چڑھ نے کی ہمت ہی نہ کرسکا ۔بے شک عمرہ یا حج ِ اصغر کی سعادت حاصل کرنے کے لئے کچھ فرائض اورواجبات ادا کرنے کے بعد اس کی ادائیگی ہوجاتی ہے لیکن اگر زائر تندرست اور توانا ہو تو قیام ِ مکہ کے دوران ایک سے زائد عمرہ کرکے بے شمار فیوض و برکات سے اپنا دامن ِ طلب بھرسکتا ہے، لیکن وائے بدنصیبی مجھ جیسے لوگ ایک ہی عمرہ کرنے پر اکتفا کر نے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
راقم السطور دسمبر کی 19؍دسمبر کو اپنی اہلیہ سمیت حرمین الشریفین کی جانب روانہ ہوا ۔ کشمیر میںسردی انتہائی شدید تھی مگرہماری اکلوتی بیٹی مدیحہ نے سری نگر ائر پورٹ پر ہمیں وداع کر نے کے لئے زورد ار سردی کو اپنے پیار کی گرمی سے مات دی ، جب کہ میرے بھتیجے عمر نے ائر پورٹ تک گاڑی ڈرائیو کر کے اس پیار کو اور زیادہ رونق بخشی۔ اللہ انہیں سلامت رکھے ۔گاڑی کے اندر ناقابل برداشت ٹھنڈ کا مقابلہ عمر نے ہیٹر سے کیا ، تب ہماری جان میں جان آئی ۔طیران گاہ کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے کچھ دور ی پر ہی سیکورٹی چیک کے دوران سیکورٹی جوانوں نے مدیحہ کو چیک پوسٹ سے آگے ساتھ لے جانے پہ منع کیا ، اس سے ہمارے لئے مشکل کھڑی ہوگئی ۔راقم نے آفیسر مجازسے کہا کہ ہم زیارت ( عمرہ )پر جارہے ہیں، ہماری اکلوتی بیٹی ائر پورٹ تک ہمارے ساتھ آنے کی شدید خواہش رکھتی ہے ۔اس نے فوراً از راہ ِانسانیت ہمیںاپنی صاحبزادی سمیت جانے کی اجازت دی۔ بچوں سے وداع لینے کے بعد ائر پورٹ سے ہمارا طیارہ ساڑھے گیارہ بجے کی بجائے بارہ بجے دہلی کے لئے اُڑان بھر گیا ، ڈیڑھ بجے کے قریب طیارہ اندرا گاندھی انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اُترا ۔ ہم سرینگر سے ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے بچ نکل کردہلی کے سہانے موسم کی آغوش میں آگئے ۔دھوپ اپنے شباب پر تھی اورہر سو رونق نظر آتی تھی۔ پروگرام کے مطابق ہمیں رات دہلی میں ہی قیام کرکے دوسرے روز صبح سویرے کویت ائر ویز کے ذریعے کویت پہنچا تھا اور وہاں سے دوسرے طیارے میں جدہ شریف کے لئے روانہ ہونا تھا ۔ ٹور آپریٹر محبی کلیم اللہ صاحب ہمیں دہلی ائر پورٹ سے باہرٹیکسیوں میں بٹھا کر دہلی مطار کے قریب ہی ایک ہوٹل میں لے گئے ۔یہاں تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے ظہرانہ اورعشائیہ کیا ۔اپنی وادی کی یخ بستہ ہواؤں سے دور یہاں رات آرام سے گذارنا چاہی لیکن رات تین بجے ہوٹل سے ائر پورٹ کی جانب روانہ ہونے کا مطلب تھا آنکھوں کو نیند سے فارغ کر کے رکھنا ۔چنانچہ مقررہ وقت پر جب ہمارے کمروں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے ،ہم نے اپنا سامان سنبھالا اور اَدھ کھلی آنکھوں سے ائر پورٹ کی راہ لی۔ 20؍تاریخ کو ہم صبح ساڑھے سات بجے کویت ائر ویز کی ائر بس میں سوار ہوئے ،اس بھاری بھرکم کویتی طیارہ میں چار سو مسافروں کو بٹھانے کی گنجائش تھی۔دہلی ائر پورٹ سے کویت تک یہ لمبا ہوا ئی سفر ہم نے آرام واطمینان سے طے کیا ۔گرچہ تمام انٹر نیشنل ہوائی سروسز کا عملہ کافی مہذب اور مہمان نواز ہوتا ہے لیکن راقم نے محسوس کیا کہ کویت ائر ویز کا عملہ جتنی حلیمی اور شائستگی کے ساتھ مسافروں سے پیش آتا رہا ،وہ اپنی مثال آپ تھا ۔راقم کو یہ بھی لگا کہ مہمان نوازی میں اگرچہ عرب لوگ اسلامی تہذیب اور اپنے اسلاف کے طریقہ ٔ کار کو نہیں بھولے ہیں لیکن ان کے رکھ رکھائو ،لباس وغیرہ پر مغربی کلچر کا رنگ بھی خوب چڑھا ہوا پایا ۔ پھر بھی ان کی فرض شناسی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہا۔ طیارہ کے بیچ بیچ میں لگے بڑے بڑے ٹی وی سیٹ چالو ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دو نفری اور تین نفری سیٹ کے سامنے والے چھوٹے ٹی وی سیٹ چالو ہوئے ۔سفر کی شروعات مسنون دعائوں سے کی گئی ۔اس کے بعد ٹی وی پر اپنے ملک کے ترقیاتی پروجیکٹس وغیرہ کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں ۔ پورے سفر کے دوران کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں مسافروں کو پیش کی جاتی ر ہیں، جب کہ دن کا کھانا بھی سفر کے دوران ہی پیش کیا گیا ۔دن کے تین بجے ہمارا طیارہ کویت ائر پورٹ پر اُتر گیا ۔طیارہ سے اُترنے میں ہمیں اچھا خاصا وقت لگا کیونکہ یہ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ہمارے ٹور آپریٹر نے طیارہ سے اُترنے میں البتہ خود سبقت لی تاکہ انتظامات کر سکے۔ جب پچاس زائرین پر مشتمل ہمارا کاروان طیارہ سے اُترا تو کلیم اللہ ہمیں ائر پورٹ سے ملحق ایک عمارت میں لے آئے، یہ اُن مسافروں کے لئے مختص ہے جو مختلف طیاروں میں انتظار میں یہاں سستا لیتے ہیں ۔ اس کشادہ عمارت کے اندر مختلف قوموں اور ملکوں سے وابستہ لاتعداد مسافروں کو مختلف سمتوں سے آتے جاتے ہوئے دیکھا ، یہاںمرد اور خواتین کے لئے دو الگ الگ شاندار مسجدیں بھی قائم ہیں ۔ہمیں ائر پورٹ کے اسی ٹرمنل پر دوسرے طیارے میں سوار ہونا تھا، مگر اس کے لئے دو ڈھائی گھنٹوں کا انتظار کرنا پڑا ۔دریں اثناء انتہائی خوش کن آواز میں عصر کی اذان فضا میں بلند ہوئی ۔اکثر زائرین نے عصر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی ،چونکہ یہاں ہمیں اچھا خاصا وقت گزارنا تھا، لہٰذا یہیں پہ احرام باندھنے کا بھی پروگرام بنا تھا ۔ اس اہم کام کو سر انجام دینے میں کلیم صاحب اور اس کے معاون بلال احمد نے بڑے ہی اَحسن طریقے سے زائرین گروپ کی رہنمائی کی ۔ خواتین نے بھی یہیں گھر سے پہنے ہوئے کپڑے تبدیل کرکے نیا لباس بطور احرام زیب تن کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہی مصروفیات میں سارا وقت بیت گیا اور پتہ بھی نہ چلا ۔کویتی وقت کے مطابق ہم شام پانچ بجے کے قریب دوسرے طیارے میںسوار ہوکر جدہ شریف روانہ ہوئے۔
جب ہمارا قافلہ میقات کو پہنچا تو اس کا باضابطہ ا علان ہو اکہ ہم احرام کی چاریں اوڑھیں اور عمرہ کی نیت باندھیں۔ جدہ ائر پورٹ کے قریب پہنچنے لگا تو اعلان ہوا کہ تھوڑی ہی دیر میں ہمارا طیارہ جدہ ائر پورٹ پر لینڈ کررہا ہے اور یہ کہ تمام مسافر اپنی اپنی پیٹیاں باندھیں رکھیں ۔ یہ سنتے ہی میری آنکھیں بھر آئیں ، یہ آنسو غم کے نہیں بلکہ خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے ،کیونکہ آج برس ہا برس کے بعد میرا خواب شرمندۂ تعبیر ہورہا تھا کہ اللہ کے گھر کا طواف کرنے کے ساتھ ساتھ دَرِ نبی ؐ پر حاضری دینے کی سعادت نصیب ہورہی تھی ۔اسی جذباتی کیفیت کے ساتھ جب میں نے بڑے اشتیاق سے طیارہ کی کھڑکی سے نیچے کی طرف جھانکا تو سارا جدہ شہر تاروں سے ٹمٹماتااشہر دکھائی دیا ۔گہرے اندھیرے میں یہ شہر لامثال نظارہ پیش کررہا تھا ۔ مقدس شہر کی بستی کے مکانات آنکھوں کو خیرہ کرنے والے قمقموں کی روشنی میں یوں چمک رہے تھے جیسے ہم تاروں کی بستی میں اُترنے والے تھے۔مجھے لگا جیسے اس شہر کی فضائوں میں لاتعداد جگنو محو پرواز ہیں ۔واقعی طیارہ سے یہ نظارہ اتنا خوبصورت اور بے نظیر دکھائی دے رہا تھا کہ راقم اسے الفاظ کا لبادہ پہنانے سے قاصر ہے ۔میں اس خوبصورت نظارے کا مشاہدہ کرنے میں محو تھا کہ اچانک طیارہ کو ایک زور دار جھٹکا لگا ،میں نے محسوس کیا کہ جیسے میں گہری نیند سورہا تھا کہ جھٹکے نے مجھے جگادیا ۔دراصل جہاز کا ٹائر نیچے پٹری کوچھوجائے تو جھٹکا لگتا ہے۔ ،اب شام کے سات بجاچاہتے تھے ۔ جہاز سے اُتر نے کے بعد ہم اُس دفتر میں داخل ہوگئے جہاں پاسپورٹ اور دوسرے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کرانی ہوتی ہے ۔ چونکہ یہاں سفری دستاویزات کی لازمی جانچ پڑتال باریک بینی سے کی جاتی ہے ، اس لئے ہر مسافر جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی کوفت محسوس کرتا ہے ۔ اپنی باری پرمیں متعلقہ کونٹر پرپہنچا ،یہاں عرب نوجوان کے سامنے پاسپورٹ رکھ دیا ،وہ میرا پاسپورٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہا تھا ،میں سمجھا شاید مجھ سے کچھ پوچھ رہا ہے مگر اُس کے کانوں میں جوہیڈ فون لگا ہوا تھا اس سے اندازہ ہواکہ یہ اصل میں کسی سے بات چیت میں مشغول ہے ۔ گفتگو ختم ہونے کے بعد اس نے لوازمات پورے کرکے میرے پاسپورٹ پر مہر ڈال دی ا ور اسے میر ہاتھ میں تھمادیا ۔اس تھکا دینے والے عمل سے جب ہم سب فارغ ہوگئے تو عزیزم کلیم اللہ ہمیں باہر روڑ پر لے آئے ،یہاں زائرین کو خانہ کعبہ لے جانے کے لئے بسیں قطار میں لگی ہوئی پائیں ۔کلیم صاحب نے ہم سب کو ایک بس میں بٹھا دیا اور ہم بڑے ارمان لئے کعبہ شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔اُس وقت ہر سو اندھیرا چھایا تھا لیکن بجلی قمقموں کی روشنی میں شہر مکہ بڑی آب و تاب کے ساتھ دمک رہا تھا ۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی میں اور زائرین کی گہما گہمی سے یہاں دن اور رات میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیا ۔ سفرکے اختتام پرہماری گاڑی بالآخر اُس ہوٹل کے قریب رُک گئی جہاں ہمیں اب قیام کرنا تھا ۔ہوٹل کے اندر داخل ہوکر ہم نے اپنا سامان وغیرہ اپنے اپنے کمروں میں ڈال دیا اور وضو کی تجدید سے روح کو تازگی عطا کی۔اب کچھ ہی ثانیوں میں ہمیں خانہ کعبہ کی طرف عمرہ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ دل مچل رہاتھا ، جذبات میں تلاطم تھا، یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ جس حرم کی جانب قبلہ رُو ہوکر اپنے سجدے آج تک ادا کئے، اسی گود میں ہوں ۔ آنکھیں نم تھیں اور لبیک کا سوز ِجگر وردِ زبان تھا۔ اپنے گروپ میں ہر زائر پیارا تھا مگر ایک معتمر کے ساتھ سرینگر ائر پورٹ سے ہی میری خاص قربت ہوئی۔یہ صاحب بمنہ سری نگر کے رہنے والے محترم فدا محمد خان ہیں، اُن کے ساتھ اُن کی اہلیہ بھی تھیں ۔دونوں حسن ِاخلاق کے پیکر ہیں ،ماشا ء اللہ یہ دونوں اب کی بار دسویں مر تبہ خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور دیارِ حبیب ؐ میں حاضری دینے جارہے تھے۔لہٰذا ہم نے اپنے لئے یہ خوش نصیبی سمجھی کہ یہ جوڑا ہمارا ہمرکاب بنا ۔ فدا صاحب نے شروع میں ہی میری اہلیہ کو اپنی اہلیہ کے سنگ چلنے کا مشورہ دیا، راقم کو لگا کہ فدا صاحب اور بھابھی دونوں بیت اللہ اور دیار حبیب ؐ میں حاضری دینے کا جنوں کی حد تک شوق رکھتے ہیں ۔اس خوش نصیب جوڑی کی رفاقت میرے لئے سفر محمود کے دوران باعث رحمت ثابت ہوئی ، بالخصوص بھابھی کی موجودگی میں کعبہ شریف یا مدینہ شریف میں کہیں بھی میری اہلیہ کو مجھ سے کسی طرح کی کوئی مدد لینے کی ضرورت نہر ہی، جب کہ عمومی طور ایک مرد زائر کو قدم قدم اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے مشقت اٹھانی پڑتی ہے ۔بہر حال اپنا سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھنے کے بعد ہم چاروں اجتماعی طور عمرہ کرنے کی غرض سے کعبہ شریف کی طرف روانہ ہوئے ۔ذرا سی مسافت طے کرنے کے بعد ہم نے حرم پاک کے حدود میں اپنے قدم رکھ دئے ،اس کے بعد ہم سیدھے کعبہ شریف کی طرف گئے ۔ مقدس کعبہ اپنی تمام تر نورانی کیفیات کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے تھا یاہم اپنی غلطیوں گناہوں کا پشتارہ اور توبہ و ندامت کا خالص جذبہ لئے کعبہ شریف کے سامنے ایستادہ تھے ، میں اس کی وضاحت کر نے سے قاصر ہوں ۔ ہم نے ذوق وشوق سے طواف کا فریضہ انجام دینے کے بعد صلوٰ ۃ الطواف کی دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے ادا کی اور دست بدعا ہوئے ۔اس کے بعد زمزم خوب پی کرسعی کرنے کی خاطر صفا مروہ کی طرف بڑھ گئے ۔سعی کے ساتھ پھیرے کرکے مطاف میں آکر دو رکعت نماز شکرانہ پڑھ کے دعائیں کیں۔اس کے بعد سر کے بال منڈوائے ۔اس طرح عمرہ کے تمام لوازمات مکمل ہونے کے بعد ہم ہوٹل کی طرف خوشی خوشی لوٹ ا ٓئے۔ ہمارے ساتھ روحانی طمانیت کا ایک بے پایاں خزانہ بھی تھا۔
چونکہ ہمیں مکہ شریف میں نو دن گذارنے کا پروگرام تھا ،ا س دوران روزانہ تہجد اور پنج گانہ نماز حرم پاک میں ادا کرنے کے بعد طواف کعبہ کرنا ہمارا معمول بنارہا ۔چونکہ کعبہ شریف میں ہمیشہ زائرین کی اچھی خاصی بھیڑ رہتی ہے ،اسی وجہ سے فدا صاحب نے ہمیں حجر اسود کا بوسہ لینے کی بجائے دور سے اشارتاً استلام کرنے کا مشورہ دیا، جس پر ہم سب عمل کرتے رہے۔خانہ کعبہ میں فدا صاحب خود بھی اسی پرعمل پیرارہے۔راقم کو خدا کے گھر میں حاضری دینے کا یہ پہلا موقع نصیب ہورہا تھا، اس لئے کسی دن دور سے استلام کے بجائے کم از کم ایک بار حجر اسود کا بوسہ لینے کا شوق راقم کے قلب وجگر میں مچل مچل رہا تھا ۔اس غرض سے راقم اکیلے دو ایک بار ہوٹل سے نکلتا بھی رہا ۔ا لحمد اللہ ، راقم نے اللہ کے فضل واحسان سے آخر ایک موقع پر حجر اسود کا بوسہ لینے کا شوق پورا کر ہی لیا ۔ شکر ہے کہ ایسا کرتے ہوئے کسی خاص دِقت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا ، البتہ اگر اللہ مدد نہ کرتا تو میرا یہ دلی شوق دھرے کا دھرا رہتا ۔ فدا صاحب کی اہلیہ اکثر ہم سے بہت پہلے میری اہلیہ کو ساتھ لے کر حرم کو نکلا کرتیں اور وہیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتیں۔ شکر ہے میری اہلیہ اُن کے ساتھ کچھ ایسے گھل مل گئی جیسے دونوں مدتوں ایک دوسرے کو قریب سے جانتی ہوں۔
خانہ کعبہ میں ٹھہرنے کے دوران چوتھے روز ہمیں مکہ شریف کے تاریخی اور مقدس مقامات اور کچھ تاریخی مساجد وغیرہ کی زیارات پر لے جایا گیا ۔سب سے پہلے ہم مزدلفہ پہنچے ،جبل الر حمۃ کی پہاڑ ی کو نیچے سے دیکھ کر دل نے انگڑائی لی کہ اس پر چڑھا جائے ۔ ہمیں اس کے لئے وقفہ بھی دیا گیا۔گروپ میں شامل بعض زائرین نے پہاڑی پر چڑھنے کی ہمت نہ کی ، جب کہ بہت سارے زائرین کے ساتھ میں اور میری اہلیہ بھی اس روح پرور پہاڑ ی پر چڑھ گئے ۔ پہاڑی پر چڑھنا اگرچہ تھوڑاسا دشوار تھا تاہم یہ زیادہ اونچا بھی نہیں ۔جبل الرحمتہ کے تاریخی پس منظر کے بارے میں راقم کو کوئی خاص معلومات نہیں تھیں لیکن یہی سنا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ یہی قبول ہوئی تھی ۔اس کے علاوہ ہم نے وہ سبھی مقامات بھی دیکھے جہاں دوران ِ حج بیت اللہ حاجیوں کے لئے پہنچنا لازمی ہوتا ہے ۔ میدان عرفات ،منیٰ ،مسجد نمرہ ،جو عرفات کی سرحد پر واقع ہے ،مسجد عقبہ بھی دیکھی ،جبل ثور بھی دیکھا جہاں ہجرت کے وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یا رِغار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پہاڑ ی میں واقع ایک غار میں تین شب وروز مقیم رہے۔جبل نور کی بھی زیارت کی،اس پہاڑ پر وہ غار ہے جو غارِ حرا کے نام سے مشہور ہے ۔چونکہ اس دن کا پروگرام ٹور آپریٹر نے اپنے طور ترتیب دیا تھا ۔اس لئے ہم نے نیچے سے ہی ان دونوں پہاڑوں کا دیدار کیا ۔ ہمارے پاس اتنا وقت بھی کہاںمیسر تھا کہ کوئی زائر دو پہاڑوں پر چڑھ جاتا ،کیونکہ حرم کی کوئی ایک نماز چھوٹ جانا کوئی کم خسارہ نہیں ۔ البتہ لاتعداد شائقین حرم پاک میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ہی یہاں کا رُخ کر تے ہیں اور اوپر چڑھ کر اپنی متاعِ عقیدت ومحبت لٹادیتے ہیں۔بہر حال یہ سارا دن انتہائی مصروفیات میں گزر گیا اور مغرب نماز سے پہلے ہم واپس ہوٹل پر پہنچ گئے۔
رابطہ مصطفیٰ آباد ،بمنہ۔موبائیل9796764784
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)