شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے کہا ہے کہ ایک موت تو وہ ہے کہ روح انسانی بدن سے اپنا تعلق منقطع کر لیتی ہے لیکن خود زند ہ رہتی ہے۔ اس طبعی موت کے علاوہ ایک موت اور بھی ہے جو اس سے زیادہ شدید ہوتی ہے، اس کا نام غلامی ہے، جس میں روح بدن سے تعلق منقطع نہیں کر تی لیکن خود مر جاتی ہے، نتیجہ یہ کہ بظاہر انسان زند ہ نظر آتا ہے لیکن دراصل اندر سے وہ مردوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے ؎
موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن ِخواجگی کا ش سمجھتا غلام
آیئے ہم اپنی موت وحیات کی کہانی دہرائیں ۔بھارت نے 1947 میں یو این اُو کی قرار داوں میں تنازعہ جموں و کشمیر تسلیم کیا ۔لیکن اس کے بعدان سے منحرف ہوکر ریاست کو آئین ہند سے جوڑنے کی نامشکورکوشش کا آغاز 16؍اگست 1949ء کو کیا جب شیخ عبداللہ ،مرزا افضل بیگ ، مولانا محمد سعید مسعودی اور موتی رام ہیگڑا کو بھارتی آئین ساز اسمبلی کے ممبران بنائے گئے ۔ ادھرجب ریاستی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل1951ء انجام پائی تو ریاستی عوام کو اندازہ ہوا کہ بھارت جبر ی ناطے کے باوجود ریاست میں اپنے آئین کی ساخت و تشکیل کی کاروائی شروع کر چکاہے جوریاستی جموں و کشمیر میںپُر امن طریقے سے کشمیر حل پر شب خون مارنے کے مترادف ہے ۔تب سے آج تک ہند نواز تنظیموں اور رہبروں نے اقتدار کے لالچ میں دلی کے اشاروں پر کشمیریوں کو قوم ِ محکوم بنا یا ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنا فوجی اور سیاسی معاشی تسلط جماکر جموں کشمیر کے محکوم عوام کو صرف فریب دُکھ ، خون ریزیاں ، محرومیاں، کردار کشیاں ، تنگ دستیاں،بے روز گاریاں جہالت نا خواند گیاں اور بشری حقوق کی بد ترین پامالیاں دیں ۔ ان نشتروں سے نڈھال ریاستی عوام بالخصوص مسلمانوں کو معیشت اس قدر ختم کر ڈالی گئی کہ ایک معمولی چیز سے لے کر تمام ضروریاتِ زند گی کے لئے اپنا محتاج بنایا، کہ آج ہم لوگ ہر شعبے میں خود کفالت سے کوسوں دور پڑے ہیں ،حالانکہ یہاں قدرتی وسائل کی بہتات اور افرادی قوت کی بھر مار ہے۔ ہر سال سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاستی عوام اپنی ضروریات زند گی کے لئے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے چالیس پچاس ہزار کروڑ روپیہ لگ بھگ خریداری کر تے ہیں جب کہ ریاست میں فی کس آمدنی اوسط ہندوستانی شہری سے کم ہے۔ خواند گی شرح اوسط بھی ہندوستانیوںسے بہت نیچے ہے اوربے روزگاری کا شرح اوسط ہند سے دوگنی ہے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ یہاں آبی وسائل کا بہتات ہے مگر پھر بھی بلا خلل بجلی دستیاب نہیں ،یہ دوسری بات ہے کہ ریاست کے آبی ذخائر پر مبنی پاور پروجیکٹ کا سارافائدہ ہندوستانی عوام کودو دو ہاتھوں لوٹ کر پہنچایاجا رہاہے ۔ ریاست جموں کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں مگر یہاں سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں مسلمان ملازمین کا شرح ِتناسب بہت کم ہے۔ اعلیٰ انتظامی و پولیس عہدوں پر کشمیریوں کی تعداد انگلی پر گننے کے برا بر ہے، جب کہ ریاستی عدلیہ میں بھی یہ شرح ناگفتہ بہ ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہ کوئی پیچیدہ سوال یا معمہ نہیں بلکہ ایک کھلا راز ہے کہ یہاں مسلمانوں کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے کی ایک پالیسی روبہ عمل لائی جارہی ہے۔ اس وقت ریاستی سیکرٹریٹ میں ہر اعلیٰ عہدہ پر غیر ریاستی برا جمان ہے انتظامی مناصب پر ریاستی مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برا بر ہے۔ حال یہ ہو تو انصاف کہاں ہو گا؟ اس لئے ریاستی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا، ان کے جان و مال کے لالے پڑنا ،لا قانیت اور نا انصافی کا دور دورہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
بھارتی حکمرانوں نے 1947 سے ہی ہند نواز تنظیموں کو اپنے شیشے میں اُتار کر ریاستی کی اکثریت کو ہر سطح پر مفلوج بنا کر رکھ دیا ۔ ان کو دبانے کے لئے کالے قوانین کا نفاذ ہے ، گولی ہے ، پیلٹ ہے ، جیل ہے ، کردار کشی ہے ، تذلیل ہے ۔اس صورت حال سے دوچار یہاں کے مسلمان پریشان حال بھی ہیںاور بے یارو مدد گار بھی۔ پچھلے ستائیس سال سے ہندوستانی فوج اور نیم فوجیوں نے افسپا کے خنجر و تبر سے کشمیر میں خاص کر کیا کیا قہر ڈھائے ،وہ ایک لمبی بھیانک رُوداد ہے ۔ اتنی ساری المناک سرگزشت کی تفصیل میں جائے بغیر اگر ہم سال2016 ء میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کریں کہ کس طرح پی فوج اور پولیس نے مل کر ڈی پی سرکار کے زیر سایہ کشمیر میں انسانیت کی تمام سرحدیں پار کیں اور انصاف و قانون کے تمام تقاضوں کو نظراندازکر کے کس بے دردی سے سینکڑوں لوگوں کو شہید کر دیا، اندھا بنادیا ، زخم زخم کردیا۔ جیلوں میں بھردیا ، گھر بار اُکھاڑ دئے اور بستیاں اجاڑ دیں، تو کلیجہ منہ کو آئے گا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ چاڈورہ کی شہری ہلاکتیں اس کی گواہ ہیں ۔
اگر ہندنواز واقعی کشمیری قوم اور بر صغیر کے بہی خواہ ہوتے تو آج تک مسلٔہ کشمیر کا وجود ہی نہ ہوتا۔ انہی غرض پرست لیڈروں نے خالص کرسی کے لئے کبھی الحاق کیا، کبھی ایکارڈ کئے اور ہر بار کشمیریوں کے جذبات لتاڑ کرانڈیا کی وظیفہ خوری کا حق ادا کیا ۔اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے انہوں نے کبھی رائے شماری کا نعرہ دے کر اپنا الوسید ھا کیا، کبھی اٹونامی کے جھوٹے جھوٹے خواب دکھاکر قوم کو بیچ کھایا ، کبھی سیلف رول کی ڈفلی بجاکر لوگوں کو بے وقوف بنایا۔ دہلی میں 22؍ستمبر2013سابقہ فوجی سربراہ وپی سنگھ نے علی الاعلان کہا تھا کہ بھارتی کی حکمرانوںنے 1948 ء سے اقتدار اور دولت کے سہارے جموں کشمیر میں کام چلایا، ہند نواز سیاست دانوں اور وزاء کو بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اور فوج سے رقومات دیتیں رہیں ۔اس حق بیانی پرجب ایک طرح کا ہا ہا کار مچ گئی تو ریاست کے ایک سابقہ وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اعترافاً کہاہند نواز جماعتوں نے ریاست جموں کشمیر میں ترنگا قائم رکھنے کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں اور کوئی ان قربانیوں کو نظر انداز نہیںکر سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر عمر عبداللہ نے اعلان کیا کہ ہم نے1947ئسے کشمیری عوام کا آزادی پسندی کو قربان کر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی حفاظت کئے چلے آر ہے ہیں، لہٰذا بھارت فوج یا خفیہ ایجنسی سے رقومات لینا ان کا حق بنتا ہے۔ اپنی باری پر پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے رہائش گاہ پر پریس نمائندوں کو صاف بتایا کہ دہلی کو علیحدگی پسند کا موقف معلوم ہے لیکن ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہند نواز جماعتوں کے موقف کو لے کر بھارت کو ہمیشہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ یہ نہ جانے کب اپنا موقف بدل دیں، اس لئے ہند نوازوں کو اقتدار اور پیسہ دے کر اُن کا منہ بند رکھنا پڑتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے واقعی کشمیری ہند نواز لیڈروں کی نبض تاڑ لی ہے کہ کب ان کے سامنے کیا نوالہ ڈالنا ہے ۔ان لوگوں کے سیاسی کردار کا معروضی اور منصفانہ تجزیہ کیجئے تو آپ یہ اخذ کئے بغیر نہیں رہیںگے کہ وقت وقت کے ان لیڈروں کے موقف بدلنے کی سود گرانہ عادت اور کرسی کی عبادت کے طفیل ہی تنازعہ جموں کشمیر اب تک حل طلب ہے ۔ انہی کی فتنہ سامانیوں اور لن ترانیوںسے آج سات لاکھ سے زائد فوج اور نیم فوجی نفری یہاں افسپا کی پوجا کر تی ہے۔ اگریہ نام کے لیڈر کرسی نواز سیاست کاری کے اسیر نہ ہوتے تو تنازعۂ جموں کشمیر کا وجود ہی نہ ہو تا اورنہ بر صغیر کے مطلعٔ سیاست پر ایٹمی جنگ کے بادل ہمیشہ منڈلا رہتے اور نہ ہند و پاک دشمنی حقیقت اور آر پار کی دوستی فسانہ ہوتی ۔ سوال یہ ہے کہ جب عمر عبداللہ نے چھ سالہ اقتدار میں وعدے کر کے افسپا ہٹانے کا دم خم نہ دکھایا ، جب محبوبہ مفتی نے ایک بھی پاور پروجیکٹ اسٹیٹ کو اپس نہ دلایا بلکہ اس کے الٹ ہی ہر قدم اٹھایا، تو آج یہ دونوںکس منہ سے ووٹ مانگتے ہیں؟ جب ان کی حقیقت حال یہ ہے تواپنی نوکری یا ڈیلی ویجری کے لئے عوام سے انہیں ووٹ مانگنے کا جواز کیا ہے؟
رابطہ:ریشن ہار نوا کدل
فون نمبر9906574009