سرینگر// سخت سیکورٹی اور نامساعد موسمی حالات کے بیچ سرینگر پارلیمانی نشست کیلئے میدان سج گیا ہے ۔ نیشنل کانفرنس امیدوار ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پی ڈی پی امیدوار نذیر احمد خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے جبکہ دیگر امیدواروں کی شرکت محض رسمی ہے۔سرینگر لوک سبھا نشست کے ضمنی انتخابات میں9 اپریل کو9امیدواروں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہو گا ۔ ان امیدواروں میں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے علاوہ پی ڈی پی کے سینئر لیڈرنذیر احمد خان بھی شامل ہیں ۔ انتخابات میں جو دیگر امیدوار میدان میں ہیں، ان میںراشٹر یہ سماج وادی پارٹی(سیکولر) کے سجاد ریشی، اکھل بھارت ہندو مہا سبھاکے چیتن شرما،لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے بکرم سنگھ، راشٹریہ جن کرانتی پارٹی کے مرزا سجاد حسین کے علاوہ آزاد امیدوار معراج رشید ملک،غلام حسن ڈار اور فاروق احمد ڈار شامل ہیں ۔سرینگر بڈگام پارلیمانی نشست میں مجموعی طور پر رائے دھندگان کیلئے 1559پولنگ مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں تمام پولنگ مراکز کو حساس اور انتہائی حساس زمرے میں رکھا گیا ہے۔ وادی کی سب سے انتہائی حساس مانے جانے والی سرینگر پارلیمانی نشست پرنیشنل کانفرنس نے ماضی میں8مرتبہ فتح کا پرچم لہرایا جبکہ26سال تک شیخ خاندان کی تینوں پیڑیوں نے اس نشست پر قبضہ جمائے رکھا ہے۔نشست پر واحد کامیاب ہونے والی خاتون اُمیدوار بیگم اکبر جہاں ہیں، سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سیٹ پر کامیابی کی ہیٹرک کی ہے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ ماضی میں اس نشست پر2مرتبہ کامیاب ہوئے۔سرینگر پارلیمانی نشست پر آزاد امیدوار عبدالرشید کابلی نے سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت درج کی ہے جبکہ سب سے کم ووٹوں سے کانگریس امیدوار میر غلام محمد ماگامی نے کامیابی حاصل کی ہے۔سرینگر پارلیمانی نشست سرینگر ، بڈگام اور گاندربل اضلاع پر مشتمل ہے۔کسی زمانے میں نیشنل کانفرنس کا قلعہ مانے جانے والی اس نشست پر اگرچہ شگاف پڑ چکا ہے تاہم اس کے باوجود سیاسی مبصرین سرینگر پارلیمانی نشست کو نیشنل کانفرنس کا مضبوط گڑھ ہی تصور کرتے ہیں ۔مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے دی گئی الیکشن بائیکاٹ کال کا اثر بھی اس نشست پر سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔اس نشست پر ماضی میں نیشنل کانفرنس کا دبدبہ رہا ہے جبکہ 1967سے ہوئے 12انتخابات کے دوران نیشنل کانفرنس نے سب سے زیادہ 8مرتبہ کامیابی کا پرچم لہرایا جبکہ 2مرتبہ آزاد امیدواروں اور ایک مرتبہ کانگریس اور پی ڈی پی نے این سی کو ہار کی دھول چٹائی ہے ۔عمر عبداللہ نے پہلی مرتبہ 1998کے سرینگر پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو سرخرو کیا اور انہوںنے کانگریس امیدوار آغا سعید مہدی کو تقریبا 70ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ عمر عبداللہ نے مجموعی طور پر 1لاکھ 44ہزار 609جبکہ انکے مد مقابل آغا سید مہدی نے 73ہزار 770ووٹ حاصل کئے۔ عمر عبداللہ نے 1999کے انتخابات میں دوسری مرتبہ اس نشست پر کامیابی حاصل کی اور آزاد امیدوار کے طور پر اس انتخاب میں شرکت کرنے والی موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو 37ہزار ووٹوں سے شکست دے دی ۔ عمر عبداللہ نے 55ہزار 542جبکہ محبوبہ مفتی نے 18ہزار 683ووٹ حاصل کئے۔ 2004کے انتخابات میں عمر عبداللہ نے ہٹرک کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کرکے اپنے نزدیکی مد مقابل پی ڈی پی امیدوار ایڈوکیٹ غلام نبی لون ہانجورہ کو 23ہزار ووٹوں سے شکست دی ۔ عمر عبداللہ نے 98ہزار 422 جبکہ غلام نبی لون ہانجورہ نے 75ہزار 263ووٹ حاصل کئے۔ڈاکٹر فاروق نے بھی سرینگر پارلیمانی نشست پر2مرتبہ کامیابی کا پرچم لہرایا۔ ڈاکٹر فاروق 1980میں بلامقابلہ کامیاب ہوئے ۔ ڈاکٹر فاروق نے 2009میں ہوئے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنے نزدیکی مد مقابل پی ڈی پی امیدوار مولوی افتخار حسین انصاری کو 30ہزار 242ووٹوں سے شکست دی تھی ۔ ڈاکٹر فاروق نے ایک لاکھ 47ہزار 35 اور مولانا افتخار حسین انصاری نے ایک لاکھ 16ہزار 793ووٹ حاصل کئے تھے ۔ ڈاکٹر فاروق کو تاہم گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران ہار کا منہ دیکھنا پڑا جب پی ڈی پی امیدوار طارق حمید قرہ نے انہیں قریب40ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی،اور پی ڈی پی نے پہلی مرتبہ اس نشست پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا۔ڈاکٹرفاروق نے مجموعی طور پر ایک لاکھ15ہزار643ووٹ حاصل کئے جبکہ فاتح امیدوار طارق حمید قرہ ایک لاکھ57ہزار923ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس نشست پر واحد کامیاب ہونے والی خاتون بھی شیخ خاندان سے وابستہ ہے جو مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی شریک حیات بیگم اکبر جہاں ہیں۔ بیگم اکبر جہاں نے 1977کے پارلیمانی انتخابات کے دوران نیشنل کانفرنس کو اس نشست سے فتح دلائی اور اس وقت کے کانگریس کے امیدوار مولوی افتخار حسین انصاری کو تقریبا 1لاکھ 13ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ بیگم اکبر جہاں نے 2لاکھ 10ہزار 72ووٹ حاصل کئے جبکہ افتخار حسین انصاری نے 87ہزار 431ووٹ اپنے نام کئے۔ 1971میں سرینگر پارلیمانی حلقے پر ہوئے انتخابات کے دوران آزاد امیدوار شمیم احمد شمیم نے کانگریس کے امیدوار بخشی غلام محمد کو تقریبا 58ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ شمیم احمد شمیم نے 1لاکھ 28ہزار 948اور بخشی غلام محمد نے 71ہزار 140ووٹ حاصل کئے۔سرینگر بڈگام پارلیمانی نشست پر سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہونے والے امیدوارعبدالرشید کابلی ہیں۔نیشنل کانفرنس کی جیت پر بریک لگاتے ہوئے 1984میں آزاد امیدوار عبدالرشید کابلی نے نیشنل کانفرنس امیدوار مظفر احمد شاہ کو تقریبا 2لاکھ 80ہزار ووٹوں سے شکست فاش کیا۔ کابلی نے مجموعی طور پر 3لاکھ 67ہزار 249 جبکہ مظفر احمد شاہ نے 80ہزار 972ووٹ حاصل کئے۔ اس نشست پر سب سے کم ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والے کانگریس کے غلام محمد میر ماگامی ہیں ۔ کانگریس امیدوار غلام محمد میر نے 1996میں ہوئے انتخابات کے دوران جنتا دل کے امیدوار فاروق احمد اندرابی کو تقریباً 1500ووٹوں سے شکست دی ۔ میرماگامی نے 55ہزار 530ووٹ حاصل کئے جبکہ فاروق احمد اندرابی 53ہزار 904ووٹ حاصل کرسکا۔1967میں اس نشست پر ہوئے انتخاب کے دوران نیشنل کانفرنس کے بخشی غلام محمد نے اپنے نزدیکی مد مقابل کانگریس کے اے ایم طارق ( علی محمد طارق) کو تقریبا 9ہزار ووٹوں سے شکست دی ۔ بخشی غلام محمد نے 59ہزار 415اور اے ایم طارق نے 50ہزار 179ووٹ حاصل کئے۔1989کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے محمد شفیع بٹ نے اس نشست پر بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی ۔15اسمبلی نشستوں پر سرینگر بڈگام پارلیمانی حلقے میں فی الوقت این سی کے7ممبران اسمبلی موجود ہیں جبکہ پی ڈی پی سے وابستہ7ارکان اسمبلی اور خانصاحب حلقہ پر پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین کا قبضہ ہے۔3اضلاع پر مشتمل وسطی کشمیر کے پارلیمانی حلقے میں ضلع سرینگر میں8اسمبلی نشستیں ہیں، جن میں خانیار،عیدگاہ، امیراکدل،سونہ وار،حضرت بل، حبہ کدل،بٹہ مالو اور جڈی بل شامل ہیں۔ ان8نشستوں پر نیشنل کانفرنس کے3جبکہ حکمران جماعت پی ڈی پی کے5ممبران اسمبلی کا قبضہ ہے ۔ ضلع بڈگام کی5نشستوں پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے دو دوامیدوارں اور پی ڈی ایف کے ایک امیدوار کا قبضہ ہے جبکہ ضلع گاندربل کی نشستوں کنگن اور گاندربل پر نیشنل کانفرنس قابض ہیں۔