محبت زندگی کی ابتدا ہے
یہی ہر ابتدا کی انتہا ہے
محبت حاصلِ ہر دوسرا ہے
یہی سوزِ دروں کا مُدّعا ہے
اسی سے بزمِ عالم پُرضیاہے
محبت کی کشش شمس قمر میں
محبت کی خلش قلب و جگر میں
محبت کا ثمر ہے ہر شجر میں
اسی کی داستاں ہے چشمِ تر میں
یہی علم و عمل کا مُنتہا ہے
اسی کے دم کے بُلبل خوشنوا ہے
یہی تو اصل میں گُل کی ادا ہے
حقیقت میں یہی صدق و صفا ہے
یہی تو اصل میں گُل کی اداہے
یہ جینا ورنہ دوزخ ہی سدا ہے
اِدھر خورشیدِ انور پُرضیا ہے
اُدھر ماہِ مُنّور کیف زا ہے
اِدھر یہ زندگی منظر نُما ہے
اُدھر وہ نُور افشاں مہ لِقا ہے
محبت کا یہ سارا سلسلہ ہے
ہے خوشبو اس کی گلشن میں چمن میں
یہی جلوت گزیں دشت و دمن میں
یہی خلوت نشیں صحرا و بن میں
اسی کی گُونج ہے چرخِ کہن میں
جدھر دیکھو یہی جلوہ نما ہے
بشیر احمد بشیرؔ (ابنِ نشاط)
کشتواڑی، موبائل؛9018487470