برمی اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو جموں بدر کرنے کی مہم چلانے والی تنظیموں نے یہ مطالبہ کرکے کہ ان مہاجرین کی نشاندہی کرکے انکو قتل کیا جائے، فرقہ پرستی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ یہ عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مہاجرین کو انسانی بنیادوں پر دوسرے ممالک میں پناہ دی جاتی ہے کیونکہ انہیں موت کے خطرات سے دو چار ہونے کی وجہ سے اپنے زادوبوم کو چھوڑ کر دربدری کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مہاجرین کو عارضی بنیادوں پر پناہ دینے کے لئے اقوام متحدہ کی پالیسی موجود ہے، جو کسی نہ کسی صورت ہر ملک میں اختیار کی جاتی ہے۔ جموںوکشمیر میں مہاجرین کو انسانی بنیادوں پہ پناہ دیئے جانے کی روایت پہلے سے قائم ہے۔ خاص کر1947میں برصغیر ہند کے بٹوارے کے نتیجہ میں قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان سے ہجرت کرنے والوں نے جموںوکشمیر میں پناہ لی اور جب سے وہ مستقل باشندگی اور سرکاری ملازمتوں کے ما سوا ایسے تمام حقوق سے مستفید ہورہے ہیں، جو ریاستی باشندگان کو حاصل ہے۔ اسی طرح میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد تبتپر چینی قبضہ کے نتیجہ میں ہزاروں کی تعداد میں تبتی شہری ہندوستان منتقل ہوگئے، جنہیں اقوام متحدہ کے ساتھ انتظامات کے تحت ہماچل پردیش اور جموںوکشمیر میں پناہ دیکر آباد کیا گیا۔ مہاجرین کے متعلق ایسی روایتی پالیسی کے ہوتے ہوئے برمی اور بنگلہ دیشی مہاہرین کے خلاف یہ محاذ کیوں کھولا جا رہا ہے؟ اس پر غور و فکر کرنےکی ضرورت ہے۔ جبکہ انہیں کسی قسم کے شہری حقوق حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کوئی مطالبہ کررہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ سرکارکی خالی زمینوں پر خیمہ بستیوں اور جگی جھونپڑیوںمیں رہ کر محنت مزدوری کرکے، خاص کر کوڑا کرٹ جمع کرکے اپنے اہل و عیال کے لئے دو وقت کی روٹی جٹاتے ہیں اور یہ ایسا کام ہے ، جو ریاست کے اندر اس کام سے مخصوص طبقوں کے ایک بڑے حصہ نے عطا شدہ زمرہ بندی کے بعدکم و بیش ترک کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کے پیدا کردہ کنزیومر ازم کے دور میں اگر کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے والے ایسے طبقے نہ ہوں تو ہمارے پسماندہ سماج میںزندگی کیسی بھیانک ہو جائیگی،یہ شایدبتانے کی ضرورت نہیں۔ سماج کے ہوشمند طبقے ان حقائق سے واقف ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے، یہ ہمارے ارباب حل و عقد کے لئے سوچنے کی بات ہے۔ اگر اسکے پیچھے صرف وہ فرقہ پرست طبقے ہوتے جن کی روٹیاں ہمیشہ اسی آگ پر سینکا کرتی ہیں تو فکر کی بات نہیں تھی ، لیکن جس طرح جموں کے سنجیدہ فکر طبقہ، خاص کر تاجر برادری کو اس میںگھسیٹنے کی کوشش کی جارہی وہ انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے ۔ اگر چہ جموں چیمبر آف کامرس کی جانب سے دو روزقبل ایک پریس کانفرنس میں انتہائی حد تک، دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا گیا تھا تاہم بعد اذاں انہوں نے اس کےمضمرات کا احساس کرکے ، خاص کرریاست کے ہوشمند طبقے کی جانب سے امکانی ردعمل کے اندیشے کے بہ سبب، لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ یہ تضاد فکر کا کُھلم کھلا مظاہرہ ہے کہ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے ان مہاجرین کے خلاف زہر اگلنے والوںکو ریاست میںہی مقیم تبتی اور مغربی پاکستانی مہاجرین نظر نہیں آتے بلکہ ان کے تئیں تو یہ نہ صرف ہمدردیاں رکھتے ہیںبلکہ ان کومستقل طور پر آباد کرنے کے حق میں بھی ہیں ۔مہاجر لفظ ہی ایساہے جس کو سنتے انسانیت کانپ اٹھتی ہے لیکن جموں میں مٹھی بھر فرقہ پرست برماکی ظالم و جابر حکومت کے ستائے ہوئے ان مہاجرین کے ساتھ انسانی سلوک اختیا رکرنے کے بجائے انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی ہے ریاست کی اکثریت ہرگز اس حق میں نہیں کہ یہاں کوئی غیر ملکی یا غیر ریاستی مستقل باشندگی اختیار کرے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے ملک میں جنگ و جدل کے ماحول سے بھاگ کر کچھ وقت کیلئے یہاں آئے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیاجاناچاہئے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مہاجرین یہاں غیر قانونی طریقہ سے داخل نہیں ہوئے بلکہ ان کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طر ف سے دیاہوا باضابطہ شناختی کارڈ ہے اور وہ حکومت ہند کی رضا مندی سے یہاں رہ رہے ہیں ۔برمی مہاجرین صرف جموں میں ہی مقیم نہیں بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن اس طرح کی زہریلی مہم ان کے خلاف کہیں بھی نہیں چلائی جارہی ۔چند طابع آزمائوں کی طرف سے شروع کی گئی اس مہم میں حکمران جماعت بی جے پی کے حمایتی حلقے بھی اب پیچھے نہیں رہے اورسماج کے زیادہ سے ز یادہ طبقوں کو اس مہم میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واقعی یہ ایک اشتعال انگیز صورتحال ہے جس سے ریاست کے حالات پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور مذہبی بنیادوں پر چلائی جارہی اس مہم کےخلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ جس کی مثال کشمیر چیمبر آف کامرس کا جوابی بیان ہے، جس میں جموں چیمبر کو نتائج بھگتنے کی د ھمکی دیدی گئی ہے۔اگر جموں کی شناخت کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والےصحیح معنوں میں غیر ملکیوں اور غیر ریاستی شہریوں کو جموں بدر کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہوتےتو پھروہ مذہبی بنیادوںپر نہیں بلکہ ہر اس شخص کو یہاںسے نکالنے کا مطالبہ کرتے جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئےہیں، خواہ وہ مغربی پاکستان سے آئے ہوں یاپھر تبت سے یا کسی اور جگہ سے ۔حالانکہ ایسا مطالبہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔اس مہم سے فرقہ پرستی کی بو آرہی ہے جوبالاخر جموں کے حالات بگاڑنے پر منتج ہوسکتی ہے اور کسی بھی طور ریاست جموں و کشمیر کے مفاد میں نہیں ۔ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ریاستی حکومت خاموشی توڑتے ہوئے ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے جو قتل وغارت کی کھلم کھلا دھمکیاں دے کر خوف و دہشت کا ماحول پیداکرکےحالات خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔