دمشق/اٹلی میں پیر کے روز سے شروع ہونے والی جی سیون ممالک کی ملاقات میں شام میں پچھلے ہفتے کے کیمیائی حملے کے بعد سے بڑھتے ہوئے بحران کے حل کی تلاش گفتگو میں سب سے اہم موضوع ہوگا۔ان سات ممالک کے وزرائے خارجہ کی خاص توجہ اس بات پر ہوگی کہ کس طرح روس پر شام کے صدر بشار الاسد سے دور ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ اتحادی ممالک امریکہ سے بھی اس کی شام کے بارے میں پالیسی کی وضاحت مانگیں گے۔یاد رہے کہ اتوار کے روز امریکہ کے سیکریٹری سٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے روس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ روس شام کو اپنے ملک کے خان شیخون علاقے میں کیمیائی حملہ کرنے سے روکنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں 89 افراد ہلاک ہو گئے۔امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا ارادہ ہے کہ وہ جی سیون ممالک کی ملاقت کے بعد ماسکو جائیں جہاں وہ روسی حکام کے سامنے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے مطالبات سامنے رکھیں۔لیکن انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ امریکی حکومت کی پہلی ترجیح ہے کہ شام سے دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کا خاتمہ کیا جائے اور کیمیائی حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے شام پر کیے جانے والا میزائل حملہ کے باوجود امریکہ کی شام کے بارے میں عسکری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ریکس ٹیلرسن کا یہ بیان امریکہ کی اقوام متحدہ میں تعینات سفیر نکی ہیلی کے اس بیان کے بعد آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ شام کے حالات میں صدر بشار الاسد کے ہوتے ہوئے بہتری نہیں آ سکتی۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے نکی ہیلی نے ہی کہا تھا کہ بشار الاسد کو ہٹانا اب امریکی ترجیح نہیں رہا۔بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جیمس روبنس نے کہا ہے کہ جی سیون ممالک اگلے دو دن میں اپنی ساری کوشش اس بات پر مرکوز کریں گے کہ روس کے صدر ولادیمر پوتن شام کی عسکری حمایت کرنا بند کر دیں اور اس بحران کے سیاسی حل کی تلاش میں مدد کریں۔برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ بورس جانسن نے بھی کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ پوتن اس آمر کی سچائی کے بارے میں جان لیں جس کی وہ حمایت کرتے ہیں۔'شام کے شعیرات فضائی اڈے پر امریکی حملہ ایسی مداخلت ہے جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو باراک اوباما پرہیز کرتے رہے اور جمعے تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایسا ہی کرنے کے بارے میں کہتے رہے تھے۔ اس سے قبل 2013 میں بھی انھوں نے امریکہ کی عسکری جارحیت کے خلاف بات کی تھی اور اپنی صدارتی مہم کے دوران بھی ان کی توجہ ملک کے اندرونی حالات درست کرنے پر تھی۔واضح رہے کہ شام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے کیمیائی حملہ کیے ہیں جبکہ روس نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ شام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ شام نے کبھی کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے اور روس نے کہا کہ شامی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے باغیوں کے ڈپو پر حملہ کیا تھا جہاں انھوں نے کیمیائی ہتھیار رکھے ہوئے تھے۔روس اور ایران کے شام کے صدر بشار الاسد کے اہم حمایتی ممالک ہیں اور انھوں نے مزید یکطرفہ امریکی حملوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ میزائل حملہ سے امریکہ نے اپنی حدود پار کی ہیں۔