Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

ایک ننھے بھکاری کی سرگزشت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 13, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
آج پھر وہ بچہ مجھ سے پانچ روپئے مانگ رہا تھا لیکن میں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا – پتہ نہیں میں نے صحیح کیا یا غلط لیکن مجھے لگا کہ اب میں اس کے مستقبل کے ساتھ کچھ اچھاسلوک نہیں کر رہا ہوں – کچھ مہینے پہلے میرے آفس کے قریب کی چال میں رہنے والا ایک چھ یا سات سال کا بچہ کسی سے کچھ پیسہ مانگ رہا تھا مگر اس آدمی نے اسے جھڑک دیا۔ میں نے اس بچے کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کہاں رہتے ہو – اس نے جواب دیا کہ یہیں پیچھے کی چال میں – میں نے پوچھا ابا کیا کرتے ہیں – اس نے کہا ابو کا ایک سال پہلے انتقال ہوچکا ہے – یہ سن کر مجھے اس بچے پر رحم آیا اور میں نے پوچھا پیسے کیا کروگے – اس نے کہا سموسہ کھانا ہے – میں نے سوچا شاید بھوکا ہوگا اور وہ اپنے باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار نہ ہواسے دس روپے دیدیئے اور وہ خوشی خوشی چلا گیا – پھر میں نے سوچا کہ کہیں یہ بچہ جھوٹ تو نہیں بول رہا تھا، اس لئے علاقے کے دوسرے لوگوں سے تحقیق کیا تو پتہ چلا کہ نہیں ، بات سچ ہے اس کا باپ کار ڈرائیونگ کی ملازمت کرتا تھا اور ایک سال پہلے اچانک کسی بیماری سے انتقال کرچکا ہے اور اب اس کی ماں محنت مزدوری کرکے بچوں کی پرورش کرتی ہے – اس طرح اب اکثر وہ بچہ ہر ہفتہ دس دن میں میرے سامنے معصوم سا چہرہ بنا کر کھڑا ہوجاتا اور میں اسے دس پانچ روپے دے دیا کرتا تھا – اتفاق سے ایک دن  کچھ دوستوں کیلئے میں نے اپنے ملازم سے دو پیکٹ بسکٹ منگوایا تھا کہ اسی دوران پھر وہ بچہ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا – اس بار میں نے ایک بسکٹ کا پورا پیکٹ ہی اسے دے دیا – بسکٹ لے کر تو اسے چلے جانا چاہیے تھا لیکن وہ پھر بھی کھڑا رہا – میں نے کہا اب کیوں کھڑے ہو؟ اس نے ہاتھ پھیلاکر بہت ہی بے تکلفی سے کہا کہ دس روپے دو نا – مجھے اس کی یہ حرکت پسند تو نہیں آئی لیکن پھر بھی جیب سے  پانچ روپے نکال کر دے دئے مگر اب پتہ نہیں کیوں جب وہ مجھ سے پیسے مانگنے آتا تو مجھے اس پر شک ہونے لگا اور اس کے چہرے پر پہلی جیسی معصومیت کی بجائے اس طرح ہلکی اور تیکھی سی مسکراہٹ رہتی تھی جیسے کہ وہ مجھے بیوقوف بنا کر خوش ہورہا ہو اور مجھے خود بھی یہ احساس ہونے لگا کہ اب اس بچے کو مانگنے کی لت پڑ چکی ہے اور یہ بھوک کے لئے نہیں بلکہ اپنی زبان کے ذائقے کیلئے پیسے کا لالچی بن چکا ہے – بات صرف ذائقہ بدلنے کی بھی نہیں ہے جب کہ یہ لت پیسے والوں کے یہاں بھی ہوتی ہے، اسے یہ احساس بھی ہو چکا تھا کہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہمدردوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اسے خوب پیسے مل رہے ہیں – غرض کہ میں نے جب اس بچے پر نگاہ رکھنی شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ بچہ میرے جیسے اور لوگوں کو بھی اپنا ہمدرد بنا چکا ہے اور لوگ اس کے باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ اس کے ہاتھ پر رکھ بھی دیتے ہیں – میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب اکثر اس کے ہاتھ میں کبھی لیس کبھی کرکرے تو کبھی بسکٹ کا پیکٹ اور سموسہ ہوتا ہے اور وہ دوسرے عام بچوں سے کہیں زیادہ مستی کے ساتھ مزے لے کر گھومتا پھرتارہتاہے – شاید ماں بھی اتنی پڑھی لکھی نہیں ہوگی کہ وہ بچوں کی صحیح تربیت کر سکے جیسا کہ اکثر ناخواندہ اور پسماندہ قسم کے خاندانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ والدین کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے بچے کہاں جاتے ہیں اور کس طرح کے  بچوں کا ماحول اختیار کرتے ہیں – اور پھر بچہ جھوٹ بھی بولے تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی – ایسے میں اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو عورت کسی طرح بچوں کی پرورش کرکے جوان تو کر لے جاتی ہے لیکن ان کی صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے نہ صرف اپنے خاندان کا سہارا نہیں بن پاتے ،اکثر غلط راستے اختیار کر کے سماج اور معاشرے کے لئے بھی ایک بوجھ بن جاتے ہیں – آج اس بچے کو جب میں نے ڈانٹ کر بھگایا تو مجھے تکلیف تو ضرور ہوئی لیکن ڈانٹنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مجھ سے پیسہ مانگ رہا تھا – وجہ یہ تھی کہ جب وہ پیسہ مانگ رہا تھا تو اس کا ایک ہاتھ پیٹھ پر تھا اور دوسرے ہاتھ کو پھیلا کر پیسے مانگ رہا تھا – اس بار شاید وہ مجھ سے کچھ چھپا رہا تھا مگر اسے یہ خبر نہیں تھی کہ میں نے کچھ دور سے ہی یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ سموسہ کھاتے ہوئے آرہا ہے اور میرے اچانک سامنے آجانے سے نہ صرف وہ ایک ہاتھ سے پیسہ مانگنے لگا دوسرے ہاتھ کا سموسہ چھپانے کی کوشس بھی کرنے لگا تاکہ میں دیکھ نہ لوں – میرا فیصلہ صحیح تھا یا غلط لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایک بچہ چاہے خود سے ہاتھ پھیلائے یا والدین پاس پڑوس کے کسی گھر سے ضرورت کی کوئی چیز حاصل کرنے کیلئے بچوں کا استعمال کریں تو لازم ہے کہ کہیں پر اسے انکار اور جھڑک دئے جانے کے سبب ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے – ہو سکتا ہے اپنی معصومیت ، ضرورت ، مجبوری اور بے بسی کی وجہ سے بچہ یہ حرکت برداشت بھی کر لے لیکن جب یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے تو نہ صرف  دھیرے دھیرے اس کی غیرت مر چکی ہوتی ہے ،وہ ذلیل ہونے کا عادی بن جاتا ہے – اس طرح ذہن پر پڑنے والے منفی اثرات سے ایسے بچوں کے اندر سے خودداری اور خود اعتمادی کے جذبات معدوم ہوجاتے ہیں اور اکثر ایسے ماحول کے بچے محنت اور مشقت کے کام کرنے کی بجائے آسانی سے پیسے کمانے کی تدبیر ڈھونڈھتے ہیں – جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایسی ایک قوم بھی تخلیق ہو چکی ہے جس کا پیشہ ہی بھیک مانگنا ہے – ان کے چودہ سے پندرہ سال کے بچے ہندوستان کے ہر شہر گلی اور محلے میں سر پہ ٹوپی لگائے لوگوں کے گھروں میں لوبان کا دھواں سلگاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو پورے دن میں لوگوں سے اچھی رقم وصول کر لیتے ہیں لیکن مختلف جگہوں سے جھڑک دیئے جانے کے سبب انہیں اپنی غیرت اور خودداری پر آنے والی چوٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا -انسان کے اندر غیرت اور خودداری ایک ایسی دولت ہے جس کا احساس اگر ختم ہو جائے تو پھر وہ پیسے کمانے کیلئے چوری بے ایمانی اور طرح طرح  کے غیر قانونی کام اور کاروبار کرنے سے بھی نہیں کتراتا – اگر یہی لت کسی قوم کے لوگوں میں کثرت کے ساتھ سرایت کر جائے تو نہ صرف وہ خود اپنی فلاح وبہبود اور ضروریات کے منصوبے تیار کر پانے کی اہل نہیں ہو پاتی، دوسروں کی بھلائی کی اہل کیسے ہوسکتی ہے ؟ جب کوئی قوم دوسروں کے کام نہ آسکے تو صرف یہ تاریخ بیان کردینے سے کہ اس کا دین و مذہب دنیا کی تمام تہذیبوں پر فوقیت رکھتا ہے یا اس کے آباواجداد بہت ہی سخی اور دلدار تھے ، محسن انسانیتؐ کے منصب ، عہدے اور اقتدار کی حق دار کیسے ہوسکتی ہے …؟ جب کسی قوم سے احسان کرنے کی اس اہلیت کی شناخت بھی نہ باقی رہے تو اس پوری پوری قوم کو مٹانے اور تباہ کرنے کیلئے کسی فوج اور حملے کی کوئی ضرورت بھی کیوں پیش آسکتی ہے…؟ بلکہ وہ خود اپنے سماج اور معاشرے کی برائیوں اور خرافات کے حملے سے کمزور ہوتی رہتی ہے لیکن اسے اس کا احساس نہیں ہو پاتا کہ وہ رفتہ رفتہ مر رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انسان کی مادہ پرستی ہے جس کے جال میں قید ہو کر وہ نادان بچے کی مانند طرح طرح کے جھوٹ بول کر اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرتے رہتا ہے – غرض کہ ہم سب کہیں نہ کہیں ایک بیوہ عورت اور ایک ایسے معصوم بچے کی طرح حالات کے مجرم ہیں جس کا اپنا کوئی سرپرست نہیں ہے ،جو اسے یہ احساس دلا سکے کہ تم سب ظلم ، ناانصافی ، بے حیائی اور منکرات کے ماحول میں غفلت کی نیند سو رہے ہو – تمام وقتوں کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی پہاڑی سے لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے یہی بات تو کہی تھی اے لوگو !اگر میں یہ کہوں کہ پہاڑی کے اس پار سے کوئی دشمن کی فوج تمہارے اوپر حملہ کرنا چاہتی ہے تو کیا تم میرا یقین کروگے ؟ لوگوں نے کہا بے شک آپ سچے ہیں – پہاڑ کے اس پار کوئی فوج نہیں تھی بلکہ یہ دشمن فوج مشرکین مکہ کی مادہ پرستانہ سوچ اور فکر تھی جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے تھے اور رفتہ رفتہ سماجی اور معاشرتی برائیوں کی زد میں آکر تباہ ہو رہے تھے – رسول صلی اللہ علیہ وسلم دراصل انہیں اسی دشمن سے آگاہ کرنا چاہتا تھا ۔ ان کے بیچ جو بیدار تھے انہوں نے آگے بڑھ کر رسولؐ کی آواز پر لبیک کہا اور جو غافل تھے وہ اس وقت ایمان لائے جب انہوں نے حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا – آج ایک بار پھر انسانیت اسی فتنے کی زد میں ہے اور ہوسکتا ہے کوئی ہادی اور اس کی جماعت راستہ دکھانے کیلئے  منتظر ہو لیکن مسئلہ پھر وہی وطنی اور قومی عصبیت کے ساتھ وقت کے ابو سفیان ، ابولہب اور ابو جہل کو ناراض نہ کرنے کا ہے – شاید ہم میں سے بھی بہتوں کا معاملہ تاریخ کے اسی دور سے گذر رہا ہو – اگر ہمیں وقت پر اپنی غلطی کا احساس نہیں ہو سکا تو ایسی غیرت ، خودداری اور محبت کے بھی کیا معنی جو ابوطالب کے نجات کا ذریعہ نہ بن سکی –
 ای میل [email protected]
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

راجوری اور ریاسی میں موسلادھار بارش کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اہم سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل میں رکائوٹ ، مسافر گھنٹوں متاثر رہے
پیر پنچال
ٹنگمرگ میںپانی کی سپلائی لائین کاٹنے کا واقعہ | 2فارموں میں 4ہزار مچھلیاں ہلاک
صنعت، تجارت و مالیات
قومی سیاحتی سیکرٹریوں کی کانفرنس 7جولائی سے سرینگر میزبانی کیلئے تیار
صنعت، تجارت و مالیات
وادی میں دن بھرسورج آگ برساتا رہا|| گرمی کا72سالہ ریکارڈٹوٹ گیا درجہ حرارت37.4 ڈگری،ایک صدی میں جولائی کا تیسرا گرم ترین دن ثابت
صفحہ اول

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?