مجھے اسلام آباد دفتر پہنچناتھا ،لہٰذا علی الصبح پانچ بجے جاگ اٹھا، منہ ہاتھ دھویا، نماز اداکی، کپڑے تبدیل کئے اور پوپھی جان کوایک نظردیکھنے کے لیے ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بیدار تھیںاور کمرے میں آتے دیکھ کرمجھے غور سے دیکھنے لگیں۔ میںنے قریب پہنچ کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اجازت طلب کرنے لگا۔ وہ کچھ بولنا چاہتی تھیںلیکن کوشش کے باوجود بول نہیں پا رہی تھیں۔شایداشاروں میں مجھ سے کچھ کہہ رہی تھیں۔میں انہیں تسلیاںدیتا رہا ’’ آپ انشا اللہ! بہت جلد ٹھیک ہو جائیںگی۔۔۔۔۔اللہ بہتر کرے گا۔۔۔۔۔آپ گھر پہنچیں گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔گو یہ سب ان سے بول رہا تھا مگر اندر سے میرا دل ٹوٹ چکا تھا ۔ اس دوران وہ ہاتھوں اور گردن کی جنبش سے مسلسل مجھ سے کچھ کہتی رہیں ۔ جلد ہی میرے ضبط کے بندھن ٹو ٹ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے کئی بار فرط ِ محبت سے ان کا ماتھا چوما۔۔۔ان کے چہرے پر آخری نظر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔ میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اس کے باوجود کہ میر ا اپنا حوصلہ ختم ہو چکا تھا ، میں نے یہاں موجود پوپھی زاد بہن کو ہمت اور حوصلے کی تلقین کی ۔برآمدے پہ آکر جوتے پہنے اور انتہائی دل گرفتہ حالت میں ساڑھے تین چار گھنٹے کا سفر طے کر کے مظفر آباد سے اسلام آباد پہنچا۔
یہ میری بڑی پھوپھی تھیں۔ 20؍فروری کو اپنے خاندان کے دیگر چند افراد کے ہمراہ چکوٹھی کے راستے آر پار کی بس سروس سے شام چھ بجے مظفر آبادمیں اپنی بیٹی کے یہاں پہنچی تھیں۔گھر کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے کسی نے ہاتھ کا سہارا دینا چاہا تو اسے منع کرتے ہوئے کہا کہ نہیں اس کی ضرورت نہیں۔اپنی بیٹی ، داماد پیرزادہ منصور احمد اور ان کی ایک سالہ ننھی منی بچی کے علاوہ مظفر آباد میں قیام پذیر ان کے دیگر رشتہ دار بھی یہاں موجود تھے۔ وہ سب کے ساتھ انتہائی خوشگوار اندازمیں باتیںکرتی رہیں۔ رات ساڑے دس گیارہ بجے کے قریب جب سب افراد اپنے گھروں کو چلے گئے تو بیٹی نے تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی اپنی ماں سے کشمیری زبان میں پوچھا’’ بوبہ نیدر ما آئیہ‘‘(اَماں !نیند تو نہیں آئی) اس کا جواب نہ پا کر وہ چوکس ہوگئی اور اپنی والدہ کو ہلایا جلایا، پھر بھی کوئی جواب نہ ملا تو پریشانی کے عالم میں گھرکے قریب ہی رہائش پذیر اپنی نند کے شوہر ڈاکٹر بشیر احمد ترمبو( ترمبو صاحب سی ایم ایچ مظفر آباد بطور میڈیکل سپیشلسٹ تعینات ہیں)کو بلانے دوڑی۔ڈاکٹر صاحب فوراً آئے، ان کا بلڈ پریشرچیک کیا جس کے بعد ان کی ہدایت پر پوپھی جان کو بلاتاخیر سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔ سی ٹی سکین کے بعد انہیںابتدائی طبی امداد دی گئی۔ان پر فالج گرا تھااور اس سے دماغ میں بولنے کی نس میں خون کی گردش تھم چکی تھی۔اس کے سبب وہ قوت گویائی سے محروم ہو چکی تھیں،تاہم ہوش و حواس برقرار تھے۔مجھے اس واقعے کا علم ہوا تو راولپنڈی سے مظفرا ٓبادانہیں دیکھنے پہنچا۔ اس روز انہیں ہسپتال سے گھر منتقل کیاگیا تھا۔ میں ان کے کمرے میں پہنچا تو ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتی رہیں۔ انہیں پائپ کے ذریعے لکویڈ غذائیں دی جا رہی تھیں۔ اب ان کی صحت انتہائی گر چکی تھی اور سہارے کے بغیر چل نہیں سکتی تھیں، وہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی تھیں لیکن بول ہی نہیں پارہی تھیں۔ یہ ساری صورت حال میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ وہ اس قدر بیمار ہیں اور بول بھی نہیں سکتی ہیں ، اس کا مجھے تصور تک نہ تھا ۔ یہاں ڈاکٹر بشیر صاحب سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پر تو نہیں لیکن آہستہ آہستہ پھوپھی کی بول چال بحال ہو سکتی ہے اور وہ خود چل پھر بھی سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوبارہ فالج اٹیک کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔ ان کا مشورہ تھا کہ پھوپھی کا واپس اپنے گھر پہنچنا ہی ٹھیک رہے گا۔اگلی صبح میں واپس اسلام آباد آگیا۔
کشمیر میں جب پھوپھی کے اہل خانہ اورخاندان کے دیگر افراد تک ان کی علالت کی اطلاع پہنچی تو ان پر غم والم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کشمیر میں ہمارا خاندان ضلع بارہمولہ کے علاقے پٹن(کھور) میں آباد ہے، جہاں سے مظفر آباد کا سفر بذریعہ گاڑی محض ڈھائی تین گھنٹے کا ہے لیکن بیچ میں حائل خونی لکیرکی وجہ سے لاکھ چاہنے کے باوجو د ان کا یہاں آنابعید ازامکان تھا ۔ ان کی بیٹی یعنی میری پھوپھی زاد بہن جس سے وہ ملنے مظفرآباد آئی تھیں، کا بھی برا حال ہورہا تھا۔ پھوپھی ا س کی ننھی بچی کو پہلی مرتبہ دیکھنے، اس کے ساتھ کھیلنے اور گود میں اٹھانے بڑے شوق سے یہاںآئی تھیں لیکن پہنچتے ہی خود سہارے کی محتاج ہو گئیں۔ اس انتہائی تکلیف دہ صورتحال کے سبب خاندان کا ہر فرد دل گرفتہ تھا۔ انہیں بالآخرچھ مارچ کو واپس سرینگر پہنچایا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے ابتداء ً ہسپتال میں داخل نہ کرنے اور گھر پر ہی پھوپھی کا علاج معالجہ کرنے کی صلاح دی، تاہم وہاں پہنچنے کے دو تین روز بعد ان کی حالت زیادہ بگڑ گئی ، بالخصوص پھیپڑوں میں شدید انفیکشن کے باعث انہیں سرینگر کے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں داخل کیا گیا۔ پورا خاندان ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتارہا مگر اللہ تعالیٰ کو ان کو اپنے پاس واپس بلانا منظور تھا اور15؍مارچ بروز بدھ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں ۔ اناللہواناالیہ راجعون
شکر اللہ کا کہ ہمارے گھرانے کے دیگر افراد کی طرح وہ بھی انتہائی ملنسار اور بااخلاق خاتون تھیں ۔ مرحومہ عالم دین اور علاقے کے امام حی پیرزادہ مولوی غلام محمد (مرحوم) کی سب سے بڑی اولا داور ایک شہید بھائی پیر محمدشفیع جیلانی کی بڑی ہمشیرہ تھیں ( راقم کے والد پیر محمد شفیع کو سنٹرل ریزرو پولیس فورس( CRPF)نے22 ؍اگست 1990ء کوگھر پر چھاپے کے دوران وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد نیم مردہ حالت میں اپنے ساتھ لے گئی تھی اور وہ اب تک زیرحراست لاپتہ ہیں )۔میرے والد کئی بہنوںکی پیدائش کے بعد پیدا ہوئے تھے ،لہٰذا بڑی بہن نے انہیں انتہائی لاڈ پیار سے پالا تھا۔ان کا لاپتہ ہونا ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اپنے بڑے بیٹے پیرزادہ مختار احمد کی شادی قریباً دو برس تک یہ کہہ کر روکے رکھی کہ شفیع لالہ واپس آئے گا تو بیٹے کی شادی کروں گی۔ مرحومہ دین داری کے ساتھ ساتھ شرم و حیا سے لبریز تھیں اور بیماری کی حالت میں بھی سر پر رکھی چادر ہٹنے نہ دیتی تھیں ۔جب میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو وہاں سوائے میرے ، ان کی بیٹی ، داماد اور دیگر قریبی رشتہ دارو ں کے علاوہ کوئی نامحرم نہ تھا لیکن پھر بھی میں نے انہیں سر سے سرکنے والی چادر کو ٹھیک کرنے کیلئے اپنے کمزور ہاتھوںکو فوراً سر کی جانب لے جاتے پایا۔ کبھی قسم کھانا پڑتی تو اپنے لاپتہ بھائی یعنی میرے والد کے نام کا لیتیں اور کہتیں’’شفیع لالن درئیہ‘‘ یعنی شفیع لالہ کی قسم۔ان کی زیر حراست گمشدگی کے بعد گھر کے کاموں سے بھی ان کا دل اُچاٹ ہو گیا تھااور کھانا بنانے اور امور ِ خانہ داری کے دیگر کاموںکے لئے کچن میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔یہاں سے روانہ ہونے سے قبل اپنے تمام بہن بھائیوں سے ملاقات میں انہیں دعائے خیر کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ کہتی رہیں کہ زندگی کا کیا بھروسہ ، کسے پتہ پھر ملاقات ہو یا نہ ہو۔ اسلامک سٹیڈیز میں ماسٹرز کی طالبہ اپنی ایک پوتی کو ہدایت دی تھی کہ وفات کے بعد وہیں انہیں غسل دے۔ میں نے ہر ایک کو ان کے اعلیٰ اخلاق ، خوش گفتاری اور کسی ریاو بناوٹ سے مبرا کردار کا معترف پایا ۔ انگاروادی میں اپنی والدہ سے فون پر بات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ وفات کے بعد پھوپھی کی شکل و صورت مزید نکھر گئی تھی اور غسل دیتے وقت ان کے چہرے پر نور برستا دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے بھی اس بات کا یقین ہے کہ میرے لاپتہ والداگر کسی بے نام قبر میں آرام فرماہیں تو عالم برزخ میںان کی ملاقات ہوئی ہوگی۔ اللہ انہیں جنت الفروس میں جگہ دے۔ (آمین )زندگی میں صرف اور صرف ایک چیز یقینی ہے اور وہ موت،جو بھی انسان دنیا میں آتا ہے، اسے ایک روز اپنے خالق کی طرف لوٹنا ہی لوٹنا ہے ۔ اللہ ہم سب کو نیک بننے اور قرآن و سنت کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے(آمین)
میری مرحومہ ومغفورہ پھوپھی کو مظفرآبادمیںبیاہی اپنی بیٹی کی تڑپ یہاں کھینچ لائی تھی ۔ وہ صحت کی خرابی کے سبب امرتسر اور لاہور کے طویل راستے سے مظفر آباد پہنچنے سے قاصر تھیں ،لہٰذا انہوںنے دو ڈھائی برس قبل چکوٹھی کے راستے سرینگر مظفرا ٓباد بس سروس کے ذریعے یہاں آنے کا ارادہ کیااور اس کے لے فارم جمع کرائے لیکن انہیں بروقت پرمٹ نہ مل سکا۔ دو برس تک دونوں طرف سے کاغذی کارروائیاں چلتی رہیں جب کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کبھی متعلقہ دفتروں میں ان کے کاغذات ہی گم ہو جاتے تھے۔ طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد رواں برس مارچ میںانہیں مظفرآباد آنے کاپرمٹ مل گیا۔ وہ یہاںآئیں،بیٹی ، داماد ا اور دیگر عزیزوں سے مختصر ملاقات کی اور بیماری کی حالت میں واپس وادی میں اپنے خاندان میں واپس پہنچ کر چند ہی دن بعداپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ گو بطور مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا لیکن ان کا مظفر آباد پہنچ کر چند ہی گھنٹوں کے اندر اچانک بیمار پڑنا ، شدید علالت کی اسی حالت میںان کی وطن واپسی اور پھر وفات کا صدمہ تو ان کے بچوں، بہن بھائیوں اور خاص طور پر مظفر آبادمیں مقیم میری پھوپھی زاد بہن کے دل کو ہمیشہ غم کی اتھاہ وادیوں میں نیم جان کر کے چھوڑتا رہے گا۔ ما ں اب نہ رہیں لیکن بیٹی کے دل میں ان کی قبر دیکھنے کی حسرت تو ہے لیکن وہ وہاں جا نہیں سکتیں کیونکہ بیچ میںخونی لکیر حائل ہے۔ وہی خونی لکیر جس کے باعث لاکھوں کشمیری خاندان آر پار درماندہ ہیں اور ایک دوسرے کے فراق میں روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔بٹے ہوئے تمام خاندانوں کو اسی طرح کے رنج و الم کے واقعات کا سامنا ہے ۔ انسانوں ہی کے ہاتھوں انسانوں کے لئے بنی اس خونی لکیر نے ان کے دل چھلنی کر رکھے ہیں۔ وہ سیاسی تاجروں کی فسانہ طرازیوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ کاش کشمیر اور اس میں رہنے والوں کو انسانیت کی نظر سے بھی دیکھنے والا کوئی حکمران ہوتا جوایک بڑے انسانی المیے کے خاتمے کے لیے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ آگے آتا ،تاکہ مرحومہ جیسی دیگر ماؤوں کے کلیجے یوں غم والم کے بوجھ تلے پھٹ نہ جائے ۔ اے کاش ایسا ہو ۔