ملازمین اور دیگر طبقوں کی طرف سے احتجاج اور ہڑتالیں تو ہر دور میں ہوتی رہی ہیںلیکن آج جس طرح سے ان کے مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے حکومت نے اپنے کان بند کرلئے ہیں ،اس سے اس کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا آیاہے ۔اب جس طرح وزیر تعلیم نے ایس ایس اے کے تحت بھرتی کئے گئے باقاعدہ رہبر تعلیم اساتذہ اور ہیڈ ٹیچروں کی نومبر اور دسمبر2016کی تنخواہیں واگذر کرنے کا اعلان کیا ہے اور رواں ماہ کے آخر تک باقی ماندہ واجبات ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ نہایت خوش آئند ہے اور باقی ماندہ ملازمین کے مطالبات کی منظوری کےلئے بھی ایسا ہی طرزِ فکر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملازم طبقہ کی طرف سے پچھلے کئی عرصہ سے مسلسل احتجاج کیاجارہاہے اور خاص طور پرکنٹریکچول لیکچرارپچھلے 56دنوں سے جموں میںسراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی بات سننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے ۔ اسی طرح سے ایس ایس اے کے تحت تعینات کئے گئے اساتذہ پچھلے چھ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال پر ہیں اور ان کی حمایت میں رہبر تعلیم اساتذہ نے بھی سکول بند کررکھے ہیں ۔حال ہی میں منریگا ملازمین نے بھی ریاست گیر احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کیں ۔اس سے پہلے نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت کام کررہے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے نے بھی زبردست احتجاجی سلسلہ برپا کیا۔جس طرح سے یہ کہاوت عام ہے کہ ماں تب تک بچے کو دودھ نہیں دیتی جب تک وہ روئے گانہیں اسی طرح سے ریاستی حکومت بھی تب تک ملازمین یا عام لوگوں کے مسائل نہیں سنتی جب تک کہ وہ احتجاج کرکے پوری طرح سے تھک نہ جائیں ۔کنٹریکچول لیکچراروں کا یہی مطالبہ ہے کہ حکومت 2010میں بنائے گئے اپنے ہی قانون پر عمل کرتے ہوئے 7سال ملازمت کی مدت پوری کرچکے ملازمین کو مستقل کرے لیکن سرکار ہے کہ وہ نہ ہی ان کی بات سننے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی ان کے مطالبے کو پورا کرنے کاکوئی عندیہ دیا جا رہا ہے۔احتجاجی لیکچراروں کے کنبے بھکمری کی حد تک پہنچ گئے ہیںلیکن خود ان لیکچراروں اور طلباء کے قیمتی دن بھی ضائع ہوتے جارہے ہیں تاہم اس پر کسی کوئی فکر نہیں ۔یہ درست بات ہے کہ ریاست کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ وہ ان ملازمین کے مطالبات کوایک ہی وقت میں پورا کرسکے لیکن کم از کم ان کے مستقبل کو بچانے کیلئے کوئی نہ کوئی پالیسی تو ضرور مرتب کی جانی چاہئے ۔ آخر مستقبل کا تعین کئے بغیر یہ تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیںگے جن کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی ایفا نہیں ہورہے ۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ملازمین تعینات ہیں جن کے مستقبل کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی پالیسی ہی نہیں ہے ۔وہ مختلف محکمہ جات میں ایک ایک کرکے دن گزار رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح کاغیرہمدردانہ رویہ کب تک جاری رہے گا۔کنٹریکچول لیکچرارہوں ، منریگا ملازمین ہوں یا این آر ایچ ایم کے تحت لگائے گئے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ ،ہر ایک کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیاجاناچاہئے اور کم از کم ان کیلئے جاب پالیسی وضع کی جائے تاکہ ان کا مستقبل مخدوش ہونے سے بچ سکے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس نوجوان نے اپنی زندگی کے قیمتی دن سرکار کی خدمت میں گزار دیئے اسے اب اگرڈھلتی عمر میں دردر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں تو یہ کس قدر زیادتی کا معاملہ ہوگا۔حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ بیروزگار وں کیلئے روزگار کے نئے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان ملازمین کے مستقبل کو بھی محفوظ بنائے جنہوںنے اپنی جوانی سرکاری محکمہ جات کو دے دی ۔ خاص طور پر وزیر تعلیم کو کنٹریکچول لیکچراروں کے مطالبات کوہمدردی کے ساتھ سن کر انہیں پورا کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔