سرینگر //کشمیر ایڈیٹرس گلڈ نے مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی اُن کوششوں ‘ جن کا مقصد کشمیر کے میڈیا کو بالعموم اور بالخصوص مقامی اخبارات کی اعتباریت پر سوالیہ نشان لگاناہے‘ کی مذمت کی ہے ۔گلڈ نے کشمیر کے کچھ میڈیا اداروں اور مدیروں پر کیچڑ اچھالنے کو ایک دانستہ کوشش قرار دیاہے ۔گلڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میڈیا کیخلاف سوشل میڈیا پر جو پروپیگنڈا مختلف سطحوں پر کیا جا رہا ہے ‘اس کا مقصد میڈیا کے ذریعے عام لوگوں کی آواز کو دبانا ہے ۔گلڈ کاکہنا ہے کہ کشمیر میڈیا نے گزشتہ 25 برسوں سے یہاں کے حالات و اقعات کورپورٹ کرنے کی ایک بڑی قیمت بھی ادا کی ہے اور زائد از ایک درجن صحافی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے کشمیر کا میڈیا دنیا کے دوسرے حصوں ‘ خاص کر افغانستان ‘کویت ‘ لیبیا ‘عراق کے ٹکراؤ سے نمٹنے کا اہل ہوا، جو کشمیری صحافیوں کی ان ممالک کی کوریج سے عیاں ہے ۔گلڈ کی ایک حالیہ ہنگامی میٹنگ میں دہلی کی ایک خاتون کارکن‘مدھو کشور کی جانب سے سرینگر کے ایک اخبار کے بارے میں قابل اعتراض تبصرے پر غور کیا گیا ۔میٹنگ میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ موصوفہ کیخلاف ایک مقامی روزنامہ ‘رائزنگ کشمیر کے مدیر اعلیٰ‘ شجاعت بخاری نے عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ پیش کیا ہے‘ اس کی تردید‘اس کا دفاع اور قانونی طور پر مقدمہ لڑنا موصوفہ کا حق ہے‘ لیکن کشور نے شوشل میڈیا پر جو اس مقدمے کا ٹرائیل شروع کیا ہے ‘اس سے موصوفہ کو اجتناب کرنا چاہیے ۔گلڈ کا کہناہے کہ کشور کو عدالت پر بھروسہ کرکے کیس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے ۔کشور کے اس الزام کہ بخاری ‘ جو کہ کشمیر ایڈیٹرس گلڈ کے ایک معزز ممبر ہیں ‘ کے جنگجوؤں اور سنگ بازوں کے ساتھ روابط ہیں‘ کی مذمت کی جاتی ہے ۔گلڈ یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کہ کشمیر میں میڈیا ‘اخبارات اور ورکنگ جرنلسٹ بھی ‘اعلیٰ پیشہ وارانہ معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔کشمیر کے صحافی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق اور غیر جانبداری کا کیسے تحفظ کریں ۔