ہندوارہ//ہندوارہ سانحہ، جس میں پانچ بے قصورانسانی جانیں تلف ہوئیں، کے خلاف قصبہ میں بدھ کو مکمل ہڑتال کی وجہ سے نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا اور سانحہ میں جاں بحق ہوئے افراد کے آبائی علاقوں میں تعزیتی جلسے منعقد کئے گئے۔ ایک سال قبل 12 اپریل کو ہندوارہ میں فوجی اہلکار کے ہاتھوں ایک سکولی طالبہ کے ساتھ مبینہ دست درازی کے خلاف ہندوارہ قصبہ میں لوگوں نے مظاہرے کئے جس کے بعد فوج اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ فوج نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس میں ہندوارہ قصبہ سے ہی تعلق رکھنے والے نعیم قادر بٹ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگیا جبکہ شالہ پورہ درگمولہ کے رہنے والے 21 سالہ اقبال فاروق پیر اسپتال پہنچانے سے قبل ہی زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھا۔ واقعہ کے بعد پورے ضلع میں اس قدر حالات کشیدہ ہوگئے کہ دو روز میں یکے بعد دیگر ے ایک خاتون سمیت پانچ افراد فورسز شلنگ یا گولی لگنے سے جان بحق ہوئے جن میں لنگیٹ کی راجہ بیگم آورہ کا عارف محی الدین ڈار اور نگر ی ملہ پورہ کا جہانگیر احمد وانی بھی شامل ہیں۔ ضلع انتظامیہ نے اگر چہ تحقیقات کا اعلان کیا تاہم ایک سال گزرنے کے بائوجود نہ تحقیقات مکمل ہوئی نہ قصور واروں کو سزا دی گئی ۔ اس سانحہ میں جاں بحق ہوئے پانچ افراد کے آبائی علاقوں میں بدھ کو تعزیتی تقاریب منعقد کی گئیں۔ اس دوران جان بحق ہوئے افراد کی پہلی برسی پر ہندوارہ کے ا نوائر نمنٹ ہال میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید خطاب ،جامع مسجد ہندوارہ کے امام و خطیب منظور احمد کرمانی، ٹریڈرس فیڈریشن کے صدر اعجاز احمد صوفی کے علاوہ وکلاء اور علاقہ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔ انجینئر رشید نے ایک گاڑیوں میں بیٹھ کر ڈی سی دفتر کپوارہ کے باہر دھردیا ۔