بارہمولہ//ہندوستان کے کرکٹ کھلاڑیوں گوتم گھمبیر اور وریندر سہواگ کی طرف سے کشمیریوں کے تئیں تحکامانہ بیان کو رد کرتے ہوئے اے آئی پی سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید نے ان دونوں کھلاڑیوں اور اُن جیسے دیگر شخصیات سے کہا ہے کہ کشمیر میں فوجی جوانوں پر سنگ بازی کرنے کے متعلق کشمیریوں کو ہدف تنقید بنانے سے پہلے انہیں اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا انہوں نے کبھی بھی کشمیر میں جاری سرکاری دہشتگردی اور ہندوستان کے بے پناہ مظالم کے بارے میں ہلکی سی بھی لب کشائی کی ہے ۔ سنگھ پورہ بارہمولہ میں بیساکھی کے موقعہ پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انجینئر رشید نے ہندوستان کی اقلیتوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی ناقابل برداشت کاروائیوں کا توڑ کرنے کیلئے متحد ہو جائیں۔ انجینئر رشید نے اپنی تقریر میں کہا’’گوتم گھمبیر اور وریندر سہواگ جیسے لوگوں کو اپنی تنگ نظری چھوڑکر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جموں و کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی کرکٹ میچ نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے ۔ سیکورٹی افواج پر سنگ باری کرنے والوں اور رائے شماری کا مطالبہ کرنے والوں کو پاکستان بھاگنے کی دھمکی دینے سے پہلے ان کرکٹ کھلاڑیوں کو سمجھنا چاہئے کہ کشمیریو ں کو سنگ بازی کا کوئی شوق نہیں اور اگر انہیں وردی پہن کر کشمیریوں کو خون چوسنے والوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو انہیں اس سوال کا بھی جواب دینا ہوگا کہ ہندوارہ کے نعیم جسے کشمیر کا سچن ٹنڈولکر مانا جاتا تھا کو باقی سینکڑوں نوجوانوں کی طرح شہرت کی منزلیں طے کرنے سے پہلے ہی کیوں ابدی نیند سُلا دیا گیا ۔ گھمبیر اور سہواگ جیسے لوگوں کو اپنی بہادر فوج سے بتا دینا چاہئے تھا کہ طفیل متو اور دودھی پورہ ہندوارہ اور دیگر درجنوں مقامات پر کرکٹ کھیلتے بچوں کو کیونکر فوج نے بلا وجہ شہید کیا جبکہ ان کے ہاتھوں میں پتھر کے بجائے بیٹ اور بال تھے ۔‘‘انجینئر رشید نے فاروق عبداللہ کی طرف سے پینترا بدل کر اب پتھر بازوں کے متعلق اُن کے اس تبصرے کو کہ کچھ پتھر باز سرکاری سنگ باز ہیں مسترد کرتے ہوئے اس سے اُن کی غیر مستقل مزاجی اور سیاسی موقع پرستی قرار دیا ۔ انجینئر رشید نے ڈاکٹر فاروق سے کہا کہ اگر وہ واقعی کشمیریوں کے تئیں سنجیدہ ہیں تو انہیں انتخاب جیتنے کی صورت میں صرف تین فی صد کے ارد گرد ووٹ حاصل کرنے کو عوامی نمائندہ کردار کے منافی قرار دیکر استعفیٰ دینا چاہئے تاکہ نئی دلی کو اپنی مسلسل ہٹ دھرمیوں کا احساس دلایا جا سکے۔