سرینگر//مسلم دینی محاذ کے محبوس امیر ڈاکٹر قاسم فکتو نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ سیکولر جمہوری نظام جس کو 1787 ئ( انقلاب فرانس) کے بعد بہترین سیاسی نظام کے طور دنیا کے سامنے پیش کیا گیا عملاً مذہبی، لسانی اورنسلی اقلیتوں کے لئے بدترین نظام ثابت ہوا ہے۔ اس نظام نے ہر ملک میں وہاں کی مذہبی اور نسلی اکثریت کومستقل حکمران اور مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو مستقل محکوم بنادیاہے۔ جمہوری نظام کی اس حقیقت (اکثریت کی آمریت) کوسیکولرازم کی آڑ میں یہ کہہ کر چھپانے کی کوشش کی گئی کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور تمام ملک کے باشندے ریاست کی نظروں میں یکساں ہوں گے؟ کیا امریکہ میں سیاہ فام لوگ ریاست کی نظروں میں سفید فام لوگوں کی طرح ہیں؟ کیا بھارت میں ریاست کی نظروں میں ہندو اور مسلمان یکساں ہیں؟ کسی بھی ملک کا سیکولر ہونے کا دعویٰ وہاں کی اکثریت کا پروپیگنڈا ہوتا ہے، ہر ملک کا مذہب وہی ہوتا ہے جو وہاں کی اکثریت کا مذہب ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا کبھی بھارت کے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی اکثریت اور پاکستان کے پارلیمنٹ میں ہندﺅں کی اکثریت ہوسکتی ہے؟ اس لئے ظاہرہے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے لوگ انہی لوگوں کے مذہبی خیالات اور جذبات کی ترجمانی اور حفاظت کرتے ہیں جن کے ووٹ سے وہ منتخب ہوتے ہیں۔ آج بھارت میں بھا جپا کی قیادت میں جو ہندووائزیشن سرعت کے ساتھ ہورہی (کانگریس تدریجیہندووائزیشنپر یقین رکھتا ہے) وہ جمہوری نظام ہی کا لازمی تقاضا ہے۔ بھاجپا مسلمانوں کے جذبات اور مفادات کا خیال کیوں کرے گی جبکہ وہ صرف ہندو ووٹ سے اقتدار میں آتی ہے اس لئے بھارت جمہوری نظام کی وجہ سے ہی ھندو راشٹر ہے اور جب تک بھارت میں ہندووں کی اکثریت ہے ۔ یہ ہمیشہ ھندو راشٹر ہی رہے گا۔ ملت اسلامیہ جموں کشمیر نے حال ہی میں جو پارلیمانی انتخابات کا تاریخی بائیکاٹ کیا ہے وہ اس بات کی شہادت ہے کہ ملت اسلامیہ میں تحریک آزادی کے تئیں فکری بیداری پیدا ہوچکی ہے ۔