سرینگر کے پارلیمانی حلقے کے ضمنی انتخاب کے دوران وادی کشمیر میں بھڑک اُٹھی آگ کے شعلے ابھی بجھنے بھی نہیں پا رہے ہیں کہ فہم و فراست سے عاری سیاستدانوں کی جانب سے جلتی پر تیل ڈالنے کے غیرذمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسکو انگیخت کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ اب کی بار یہ حرکت ریاست کے حکمران اتحاد کے ایک ذمہ دار سینئر وزیرکی جانب سے ہوئی ہے، جو رواں صورتحال کے اعتبار سے نہات ہی غیر ذمہ دارانہ اور تشویشناک امرہے کیونکہ اگر تخت حکومت پر متمکن لوگ، جنکی بنیادی ذمہ داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے، ہی عوام مخالف سوچ کا کھلم کھلا اظہار کریں، تو صورتحال کا نہایت ہی خوفناک رخ اختیار کرنے کا اندیشہ قوی ہوجاتا ہے۔ ریاست کے وزیر صنعت چندر پرکاش گنگا نے سوشل میڈیا پر گشت کر رہے مختلف ویڈیو کلپوں، جن میں سیکورٹی فورسز کی جانب پتھرائو کرنے کے الزام میں کشمیری نوجوانوں کی مارپیٹ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، کو سراہتے ہوئے ایسے تبصرے کئے ہیںجو کسی بھی صورت میں ایک درست سوچ رکھنے والے سیاستدان،بالخصوص ایک سینئر وزیر کے شایان نہیں ہوسکتے، بلکہ اگر اسے فرقہ پرستانہ اور جابرانہ سوچ کا عکاس قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وزیر موصوف کا جو ویڈیو کلپ منظر عام پر آیا ہے ، اس میں انہوں نے فورسز پر پتھر پھینکنے والوں کو قتل کرنے کی کھلم کھلا وکالت کرتے ہوئے کہا ہے’’ انکے لئے ایک ہی علاج ہے اور وہ گولی ہے‘‘۔ کشیدہ حالات میں صورتحال کو قابو کرنے کےلئے فہم و فراست سے کا م لینے کی بجائے دھونس، دبائو اور دھمکیوں کی زبان استعمال کی جائے تو اس سے حالات میں بہتری آنے کی بجائے مزید بگاڑپیدا ہوسکتا ہے۔ وزیر موصوف کے بیان نے جہاں انکی فرقہ پرستانہ اور انتہا پسندانہ سوچ کو اُبھار کر سامنے لایا ہے وہیں حکومت میں شریک جماعت پی ڈی پی کو بھی خجالت سے دو چار کر دیا ہے، جسکی وجہ سے پارٹی کی صفوں میں وزیر موصوف کے خلاف زبردست غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ یہ محض ایک اتفاق ہی ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دو رز قبل جموں میں ایک پل کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھاکہ پل نہ صرف لوگوں کو آپس میں ملاتے ہیں بلکہ وہ تہذیبی تمدنی اور جذباتی سطح پر لوگوں کے ملاپ کا سبب بنتے ہیں اور اسی روز وزیر صنعت نے کشمیری نوجوانوں کے خلاف کھلم کھلا انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار کرکے وزیراعلیٰ کی سوچ کو زائیل کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھائے رکھی۔ حالانکہ پی ڈی پی قیادت مکر ریہ کہتی آئی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اشتراک کے پیچھے صرف ریاستی عوام کو پر امن ماحول میں تعمیر و ترقی کے مواقع فراہم کا جذبہ کار فرماء رہا ہے۔ اب جب اُسی جماعت کی صفوں سے عوام کُش بیانات سامنے آنے لگیں تو اس اتحاد اور اشتراک کی کیا وقعت باقی رہتی ہے۔ خاص کر ایک ایسے شخص کی جانب سے، جنکا اپنا ماضی فرقہ وارانہ معاملات میں متنازعہ رہ چکا ہے۔ وزیر موصوف آر ایس ایس کے پر چارک ہیں اور اسمبلی میں وجے پور حلقہ انتخاب کی نمائندگی کرتے ہیں، جہاں ماضی میں اور موجودہ دور حکومت میں بھی سرحدی علاقوں میں آباد گوجر آبادی کو تنگ طلب کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیںاور چونکہ موصوف اس علاقہ میں اپنی پارٹی کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا وہ اس سے بری الزمہ نہیں رہے ہیں۔ وزیر موصوف کی اس ہرزہ سرائی کے خلاف وادی کشمیر میں غم و غصہ کی لہر پید اہوگئی ہے اور نہ صرف سماجی و تجارتی حلقوں کی جانب سے بلکہ حکمران واپوزیشن سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور اس طرز عمل کو ناقابل قبول قرار دینے میں سبھی حلقے، خواہ وہ مزاحمتی ہوں یا پی ڈی پی سمیت مین اسٹریم ، یک زباں ہیں۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کابینہ کی سربراہ ہونے کے ناطے نہ صرف مذکورہ وزیرسے وضاحت طلب کرے بلکہ حلیف جماعت کے ذمہ داروں کے ساتھ معاملہ اُٹھا کر عوام کی ترجمانی کا حق ادا کر نے کی کوشش کریں کیونکہ بہر حال وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور خاص کر کشمیر میں جہاں کے منڈیٹ کی بنیاد پر وہ صر یرآرائے حکومت ہیں۔