سرینگر//سالانہ امرناتھ یاترا سے قبل متحرک سیول سوسائٹی گروپ کولیشن آف سیول سوسائٹیز نے بنگلور نشین تحقیقی گروپ ”اکویشن“کے اشتراک سے” امرناتھ یاترا،فوجی یاترا“ کے نام سے رپورٹ منظر عام پر لاتے ہوئے کہا ہے کہ1990سے یہ یاترا آبادیاتی ثابت ہوئی اور بھارت کے مختلف حصوں سے لاکھوں لوگ اس میں شامل ہوے ہیں۔ معروف انسانی حقوق کارکن آسیہ جیلانی کی13ویں برسی کے موقعہ پر سرینگر میں اس رپورٹ کو پیش کیاگیا جبکہ اس دوران دعویٰ کیا گیا کہ مذکورہ رپورٹ مختلف محکموں سے حق اطلاعات قانون کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزات،کشمیر میں افسران سے لئے گئے انٹرویو کے علاوہ وادی،جموں دہلی،لدھیانہ اور دیگر مقامات پر لوگوں اور اداروں سے حاصل کئے گئے تاثرات پر مبنی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ1990سے قبل امرناتھ یاتر ا میں کچھ ہزار یاتری شامل ہوتے تھے جبکہ1996سے اس میں3لاکھ یاتریوں کا اضافہ ہوا جبکہ روایتی طور پر یہ یاترا15دنوں کیلئے ہوتی تھی جس کو اب45سے55دنوں تک بڑھایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امرناتھ بورڈ کے2001میں وجود میں آنے کے بعد اس کے ایام میں اضافہ کیا گیا۔ ماحولیاتی حساسیت اور خطے کی خد و خال کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے لدر اور سندھ وادیوں میں آبی اور ماحولیاتی توازن بگڑنے کے سخت خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی خدشات کو یاتریوں میں اضافہ،نکاس آب و ٹھوس مواد اور گلیشروںکے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ فورسز و فوج کے اہم افسران کے انٹریو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ2015میں یاتریوں کیلئے30ہزار فورسز اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ یہ ان فورسز کے علاوہ ہے جو فورسز راستے اور کیمپس میں تھے۔رپورٹ میں یاترا کے تنازعہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ یاترا کے دوران غیر سرکاری رضا کارانہ تنظمیں کیمونٹی کچن کا بھی استعمال کرتی ہے جبکہ لنگر کے75فیصد منتظمین دہلی ،پنجاب،ہریانہ،راجھستان اور اتر پردیش سے آتے ہیں جبکہ اس میں سے بیشتر لنگر ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یاترا کے راستے پر ماحول پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں انکا مشاہدہ آنکھوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔وادی کے ٹور آپریٹروں کی حصہ داری کو یاترا میں نمک کے برابر قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر یاتری جموں یا دیگر ریاستوں کے پر تکیہ کرتے ہیں جبکہ چند ہی یاتری ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ کشمیری ٹینٹ مالکان،ٹیکسی مالکان،مرکبان اور مزدوروں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کرایہ اور اجرت طے کرسکے۔ منظر عام پر لائے گئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یاترا کے حوالے سے حکومت ہند بالکل ایک ہندو ملک کی طرح برتاﺅ کرتی ہے اور مقامی ماحول اور انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ یاترا کو15دنوں تک ہی محدود کیا جائے اور یاتریوں کے اعتقاد کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ امرناتھ یاترا کو فوج سے علیحدہ کیا جائے اور یاتیریوں کی تعداد میں بھی تخفیف کی جائے۔