وادیٔ کشمیر میں خراماں خراماں بہا ریں لو ٹ آ ئی ہیں۔اس حیا ت بخش مو سم کی اپنی ہی ایک دلآویزی اوردلکشی ہو تی ہے ۔ہر سُوہریالی کی سحر انگیز فضا ،پھو لو ں اور شگو فو ں کی دیدہ زیب آ را ئش اور طائران خو ش نوا کی چہک ہے ۔یہ سب چیزیں با د بہا ری کو اپنا ہی ا یک منفرد رنگ وآ ہنگ عطا کر تی ہیں۔ مو سم کی ان تابانیو ں سے لطف اندوز ہو نے کے لئے جہا ں رو ایتاً سیا حو ں کی آمد آ مد ہو تی ہے وہاں کاروبارِحکو مت اور نظام سلطنت چلا نے والے بھی وارد ِ کشمیر ہو نے کے لئے جموں سے اپنا رخت ِ سفر با ند ھتے ہیں۔ چنا ں چہ کچھ ہی دن میں دربا ر مو رانی بن ٹھن کے اپنے تما م شاہانہ جا ہ و جلا ل کے ساتھ جمو ں سے ارضِ جنت نظیر کو منتقل ہوا چا ہتی ہے تا کہ ایک ہاتھ جمو ں کی شدیدگر میو ں سے چھٹکا را ملے اور دوسرے ہاتھ کشمیر کے سہانے بہا ر کی آ غو ش میں اگلے چھ ما ہ تک اسے مست و مد ہو ش رہنے کاخو ب مو قع ملے۔ امر واقع یہ ہے کہ1846ء میں جب کشمیر کی خر ید وفروخت ہو ئی تو ڈوگرہ شاہی نے محض اپنی شا ہا نہ عیا شیو ں کو بلا خلل ممکن بنا نے کے لئے دربار مو کا ایک انوکھا نظام وضع کیا جو آ ج بھی من و عن موجود ہے اور شا ید ہی یہ نقش ِکہن دور جمہو ر میں بد ل جا ئے۔ طر فہ تما شہ یہ ہے کہ شخصی راج کے جا نشینو ں کو جو نہی وادی میں چھ ماہ گزارنے کے بعد جاڑے کے چلّوں کا اشارہ ملتا ہے توانہیں جموں کی یا د ستا نے لگتی ہے اور جھٹ سے بوریا بسترہ گول کرنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور پھر بہاروں کی خبر پاتے ہی واردِکشمیر ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ سوسال سے زائد عرصہ سے جاری و ساری ہے ۔ چونکہ اکتو بر کی خنک ہوائیں چلتے ہی دربا رکو کشمیراتنا کچھ سُونا سُونا لگتا ہے کہ وادی کسی بھی عنوان سے جنت نظیر دِکھتی نہیں اور تمام وزراء ،اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور ان کے ماتحت عملہ کو لگتا ہے کہ دل کا قرار گیا۔ اب چھ ماہ بعد روایت کے عین مطابق دربا ر کی وادی میں واپسی کا بگل بج چکا ہے، اس لئے کچھ ہی دنو ں میں اس کا استقبا ل کر نے کے لئے شہر سرینگر میںسیکر ٹر یٹ سے لے کر سول لائنزائریا کی حدود میں تز ئین و آ را ئش کے لئے مطلو بہ اقداما ت کئے جائیں گے ، نا لیو ں کی صفا ئی ستھرائی ہو گی اور درودیوار کارنگ روغن کیا جا ئے گاتا کہ ان مصرو ف شا ہر اؤ ں سے گز رنے والے وزرا ء اور بیر و کریٹوں کے قافلو ں کو یہ گما ن ہی نہ گزرے کہ شہرسر ینگر کا ہمچو قسم کے مسائل کے جنگل میںکس طرح دم گھٹ رہا ہے یا وہ جان کر انجان بنے پھر یںکہ روز سیکر ٹر یٹ جا تے ہو ئے جن چنیدہ سڑ کو ں سے اُن کا گز ر ہو تا ہے، ان کے اَغل بغل میں کتنے بلد یا تی مسا ئل ڈ یرا جما ئے ہو ئے ہیں۔ عقل یہ قبول کر نے سے قاصر ہے کہ ان کی نظر میں یہ مو ٹے مو ٹے مسائل نہیں آ تے کہ لا ل چو ک اور گردو نواح میں گندے پا نی کے نکاس کے لئے نا لیو ں کی صفا ئی شاذونادر بھی نہیں ہو تی، کو ڑ ے کر کٹ کے ڈھیر شہر کے قلب کوبد نما بنا نے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ تے، یہا ں کے فٹ پا تھو ں پر اب مستقلاً چھا پڑ ی فرو شو ں اور ریڑ ھی بانوں کا قبضۂ ناجا ئز ہے، یہا ں ڈرا یئورو ں کی من ما نی اور سوا ریو ں کی بے ربطی سے ہر منٹ کے بعد ٹر یفک جام لگتے ہیں، یہا ں کے دوکا ندار اپنا مال تجارت دو کا نو ں کے سامنے سڑ کو ں پر سجا کر را ہ گیرو ں کے لئے چلنے پھر نے میں ہی رکا وٹیں ہی نہیں ڈا ل رہے بلکہ گا ڑ یو ں کو بھی دوڑ نے کی بجا ئے رینگنے پر مجبو ر کر تے ہیں ، یہا ں اسکو لو ں کے قرب وجو ار میں چوری چھپے ہی سہی منشیات کے بازار سجتے ہیں، یہا ں اوبا ش نو جو ان راہ چلتی اسکو لی بچیو ں اور دوشیزاؤں کی چھیڑ خو انیا ں کر کے سما جی بے حسی اور پو لیس کے تجا ہل عافا نہ کا کھلا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ سار ی چیز یں دیکھنے کے واسطے کسی خو ردبین کی ضرورت نہیں بلکہ عیاں را چہ بیان کے مصداق ان کو دور سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن اسے ریا ست کے انتظام اور انصرام پر ما مو ر لو گو ں کی عدم توجہی کہئے یا ان کی شانِ بے نیازی کہ ان منہ بو لتے ثبو تو ں کے با وصف ان کی رگ ِ حمیت کبھی نہیں پھڑ کتی ۔رہی با ت زیر پردہ جرائم ، اخلا قی امراض اور نا ہنجا ریو ں کی وہ اگر چہ حمیت و غیر ت پر اتنی بھا ری ہیں کہ ان کا ذکر حساس قلم اور نازک احسا س کے آئینے کی ٹو ٹ پھو ٹ کے لئے کا فی ہیںمگر اربا ب ِ اقتدار سے یہ تو قع کر نا کہ وہ اس کا کو ئی دوا دارو کریں خو ش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ با یں ہمہ اب چو نکہ دربا ر مو کچھ ہی دنو ں میں ہو رہا ہے ، بہت ہی بہتر ہو تا اگر حکومت اپنی انتظا می مشنری کو حر کت میں لا کر ان جملہ مسائل کو تر جیحی بنیادوں پر حل کر تی۔ بخلا ف اس کے اگر حسب سا بق ان سلگتے عوامی مسائل کی اَن دیکھی کی گئی اور سکرٹریٹ کے فلا ئی سے لے کر ڈل کنا رے روح پرور طا لع منزل تک ہی وہ تمام کا وشیں کی گئیں جو وی آ ئی پی مو ؤمنٹ کو آ رام دہ اور فر حت رساں بنا نے پر مرکو ز ہو ں تو یہ صورتحال ایک عام آ دمی کے رگ و پے میں یہی منفی احساس بھر دے گی کہ وہ شخصی راج سے بھی گئے گزرے دور میں جی رہا ہے بلکہ اس کے لئے یہ با ت با لکل بے معنی ہو کر رہے گی کہ انتظامیہ کے پاس اس کے درد کا کو ئی در ما ں ہے ۔ شاید وہ یہ سمجھنے میں حق بجا نب ہو گا کہ حکام با لا اس کے لئے بجز اس کے کو ئی اور معنو یت نہیں رکھتے کہ وہ اس کے خو ن پسینے کی کما ئی کو با دشا ہو ں کی مانند مال مفت دل بے رحم کے مصداق کبھی جمو ں کی گرمیو ں میں اُڑاتے پھرتے رہے ہیںاور کبھی کشمیر کی بہا رو ں میں پھونکتے ہیں اور بس۔