بانہال// چند روز پہلے بدھ کے روز شاہراہ پر واقع مگر کوٹ کے نزدیک مقامی طور تیار کی جانے والی اون کی ایک چادر میں لپٹی نوزائیدہ بچی کو زندہ حالت میں فوج کی روڈ اوپننگ پارٹی نے برآمد کیا تھا اور اسے پولیس سٹیشن رامسو کے بعد پرائمری ہیلتھ سینٹر رامسو منتقل کیا گیا تھا،جہاں سے تقریباً ایک ماہ کی اس خوبصورت اور صحتمند بچی کو مگر کوٹ کے مشتاق احمد ولد محمد شفیع سوہل ساکنہ کھوڑاہ ، مگر کوٹ کی عارضی سپردگی میں دے رکھا ہے اور معاملہ رامسو پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ اکڑال کی عدالت میں پیش کیا ہے ۔ جوڈیشل مجسٹریٹ اکڑال کی عدالت میں اب تک دو افراد نے اس بچی کی پرورش و اپنانے اور گود لینے کی درخواست عدالت میں پیش کر رکھی ہے جبکہ ابھی بھی ادھ درجن سے زائد لاولد جوڑے قانونی طور اس بچی کو اپنی تحویل میں لینے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں اس اہم کیس کی اگلی شنوائی 25 اپریل کو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ رام بن کی عدالت میں ہوگی اور اس کا فیصلہ اب عدالت کرے گی کہ اس بچی کو قانونی طور کس کی تحویل میں دیا جائیگا۔اس سلسلے میں بات کرنے پر ایس ایچ او رام بن منیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس بچی کو ابھی تک عارضی طور مشتاق احمد سوہل ولد محمد شفیع سوہل ساکنہ کھوڑا ، مگرکوٹ تحصیل اکڑال پوگل پرستان کی عارضی تحویل میں دیا گیا ہے اور انہوں نے بھی قانونی طور اس بچی کو اپنانے یا گود لینے کیلئے عدالت میں درخواست دے رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ شاہنواز گنائی ولد فردوس احمد گنائی ساکنہ تھنہ ، مالیگام تحصیل اْکڑال ، پوگل پرستان ضلع رام بن نے بھی اس بچی کی قانونی تحویل کیلئے عدالت میں درخواست دے رکھی ہے اور دونوں خواہشمند افراد بچے کی نعمت سے ابتک محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس واقع کی خبر ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد بانہال ، رام بن اور وادی کشمیر سے بھی کئی افراد نے پولیس اور کئی صحافیوں سے اس بچی کی قانونی تحویل کیلئے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اب اس سلسلے میں عدالت جو فیصلہ لے گی وہ حتمی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ فسٹ کلاس اکڑال سے اب اس کیس کی آنے و الی شنوائی پچیس اپریل کو چیف جوڈیشل مجسٹریٹ رام بن کی عدالت میں رکھی گئی ہے۔ ادھر اس واقع کی صبح پرائمری ہیلتھ سینٹر رامسو ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود فارماسسٹ شبیر احمد خان سے کشمیر عظمیٰ نے اس نسبت سے بات کی۔ فارماسسٹ شبیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بدھ کی صبح ساڑھے سات بجے پولیس کمبل میں لپٹی اس بچی کو یہاں لے آئی اور اس کا چیک اپ کرنے کے بعد اسے صحت مند اور چست پایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بچی کو بدھ کی صبح چھ بجے کے اس پاس کسی سنگدل جوڑے نے رامسو اور مگرکوٹ کے درمیان سڑک کے کنارے کمبل میں اوڑھ کر چھوڑدیا تھا اور فوج کی مدد سے اس بچی کو پولیس نے بدھ کی صبح ساڑھے سات بجے رامسو ہسپتال پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ اندازہ ہے کہ بچی کو بدھ کی صبح چھ بجے کے اس پاس اس ڈھنگ سے وہاں چھوڑ دیا گیا تھا کہ معصوم بچی نہ سردی سے کپکپا رہی تھی اور ناہی اس نے رویا تھا بلکہ وہ آرام سے عام نوزائید بچوں کی طرح نیند میں تھی ۔ شبیر احمد خان نے کہا کہ اس کی ناف پر ابھی تک بندھے کلپ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس بچی کی پیدائش کسی گھر میں نہیں بلکہ ہسپتال میں ہوئی ہے اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس بچی کی عمر دس سے پندرہ دن کے درمیان ہوگی کیونکہ ناف کا خون بند کرنے کیلئے ناف پر بندھا کلپ اوسطاً ناف سوکھنے کے پندرہ روز کے اندر اندر خود ہی گر جاتا ہے۔واضح رہے کہ معصوم بچی کو چھوڑنے کے اس واقع کا ایک دلدوز پہلو یہ دیکھنے میں ارہا ہے کہ اس معصوم بچی کو سڑک کے کنارے چھوڑنے میں کوئی اور نہیں بلکہ اس بچی کے والدین ملوث دکھائی دیتے ہیں کیونکہ لڑکیوں کی زیادہ پیدائش اور غربت کی صورت میں پالنے پوسنے کے احمقانہ ڈر سے اس افسوناک پہلو کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس واقع میں مزید کئی پہلو ہیں لیکن چند ہفتوں کی بچی کی عمر اور اسے جس طریقے سے سنبھال کر اور مقامی طور تیار کی جانے والی اون کی کمبل میں اچھی طرح سے اوڑھ کر رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقع میں پہلا پہلو ہی غالب آتا ہے اور اس بچی کو چھوڑنے والوں نے اسے مرنے کیلئے نہیں بلکہ نئی زندگی کی شروعات کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر پیش آچکے ہیں۔