اک قیامت کا سماں ہم دیکھتے ہیں بار بار
ہر مکاں سے اُٹھ ہے آج بھی چیخ و پکار
پھر یہاں غم میں گریباں ہو رہے ہیں تار تار
ہو چکی ہیں نور سے محروم آنکھیں بے شمار
کیا کروں جذبات میرے ہورہے ہیںبے قرار
وادیٔ کشمیر میں پھر آگئی فصلِ بہار
رات دن بجتے یہاںہیں درد کے چنگ و رباب
خوف سے لرزاں یہاں ہے موسمِ گُل کا شباب
ہر طرف بے چینیاں ہیں ہر طرف ہے اضطراب
ہر قدم پر بے بسی کے ہیں نظارے دستیاب
غمزدہ ہیں دل یہاں سب اور آنکھیں اشکبار
وادیٔ کشمیر میں پھر آگئی فصلِ بہار
آبدیدہ یہ زمیں ہے رو رہا ہے آسماں
اس چمن میں اب خوشی کا ہے نہیں نام ونشاں
اُٹھ رہا ہے ہر سلگتے دل سے اب ہر پل دھواں
کہہ رہے ہیں یہ درودیوار غم کی داستاں
گھر اُجڑتے ہیں یہاں پر سج رہے ہیں بس مزار
وادیٔ کشمیر میں پھر آگئی فصلِ بہار
خواب ہیں مردہ یہاں سب خواہشیں بے جان ہیں
حسن کی اس سرزمیں پر کس قدر طوفان ہیں
ہر گلی ہر موڑ پر بس موت کے سامان ہیں
دفن ہر دل میں یہاں پر بے بہا ارمان ہیں
اور لت پت ہورہے ہیں خون میں کیا گل عذار
وادیٔ کشمیر میں پھر آگئی فصلِ بہار
لگ گئی اس وادیٔ گلپوش کو کس کی نظر
کھو رہی ہیں آج بھی مائیں یہاں لختِ جگر
کیوں فقیروں کی دعائیں ہو رہی ہیں بے اثر
کیا خبر ہونگے خدا کب مہرباں کشمیر پر
ختم ہوگا کس گھڑی راحتؔ یہاں یہ اضطرار
وادیٔ کشمیر میں پھر آگئی فصلِ بہار
رابطہ؛[email protected]