دریچہ کھول کر کس کو صدا دوں !
میں اپنے کرب کو کیسے نوا دوں !
اس شعر کی قرات کے بعد جب محترم شہبازؔراجوروی (پیدائش فروری ۱۹۴۰۔۔۔جموں کشمیر)کے شعری مجموعے ’’اعراف‘‘کی نظموں‘غزلوں ‘قطعات اور مفرد اشعار کا مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ انہوں نے نہ صرف سخن سازی کا دریچہ کھولا ہے بلکہ سماجی و ثقافتی کرب کی نوا بھی سنا ئی ہے‘اور اس نوا کی درد انگیز لے میںکشمیر کی دلخراش چیخیں بھی شامل ہیں اور فلسطین کے شیرخوار بچوں کی شہادتوں کا نوحہ اور افغانستان کی مظلوم آہوں کا کرب بھی موجود ہے۔نظموں کا سفینہ جگہ جگہ جوئے خوں سے رنگین ہورہا ہے۔
افق تا افق ‘ جوئے
سفینہ رواں بے گناہی ‘گناہ
ابھی سلسلے کشت و خوں کے رکے تو نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداس گلیوں کے
خوش نصیب بچوں نے
آج خیرات میں لہو‘ پایا
اماں ملے گی بے گناہوں کو
اشتہار قاتلوں نے بانٹے تھے
فضاسے بارش ہوئی کھلونوں کی
گلاب جسموں میں ہوگئیں پیو
کرچیاں ساری
چیختی تھی وہ سادگی بچپن
لہو ‘لہو ‘ فرشتوں کے گلبدن اجسام
۔۔۔۔(خیرات)
کیا تاراج ہے غارتگروں نے
امید آشیاں میں روز وشب تنکے چنے تھے
جہاں بس خون کی بارش سے
بھیگے ہیں شب وروز
۔۔۔۔۔
فسون سحر قاتل ہے سیاست
کہاں ہے احترام آدمیت
۔۔۔۔۔ (نوحہ)
کتاب میں شامل نظموں کے عنوانات پر نظر ڈالیں تو دلکش تخلیقی و افسانوی منظر سامنے آتا ہے۔ساعتوں کی سرگوشیاں‘خوش خواب لمحے‘ شبانی نالے‘ سرخ لکیر کا سفر‘کوہ ندا سے‘تاویلوں کے قیدی‘اجنبی دیس کے مسافر‘ طلوع آفتاب ‘ایک ادھورا سراپا‘حلقہ یاراں‘آو کہ مرثیہ کہہ لیں‘اجنبی قربتوں کے سلیب۔
نظم ’’طلوع آفتاب۔۔۔۔اَنَس کے کنارے‘‘کے تین بند ہیں۔دریا کا خوب صور ت منظر شاعر کی تخلیقی حس (Creative Sense )کو بیدار کرتا ہے اور وہ فنکارانہ صنعت گری کے رنگ سے سارے مناظر کی شاعرانہ تجسیم کاری کے دوران نہ صرف طلوع آفتاب کے وقت کھیتوں کی سنہری بالیوں اور دریا کے نقرئی آب کے خوشنما منظرکو جمالیاتی پیکر میں پیش کرتا ہے بلکہ وہاں کے سیدھے سادھے لوگوں کی مفلوک الحال زندگی اور خواجگان سیاست کی مجرمانہ خاموشی پر احتجاجی لہجہ بھی اختیار کرتا ہے ۔
چند مصرعے:
ہوائے خنک ۔۔۔ہے طلوع ِآفتاب کا منظر
کنارِ’’انس‘‘کیا ہے نقرئی آب کا منظر ؟
۔۔۔۔۔۔
یہ سادہ لوح بستیاں کیسی ؟
برہنہ پا ہیں عریاں بدن ان کے
۔۔۔۔۔
خبر نہیں کیا ہے جشن آزادی ؟
گھروں میں حسرتوں کے منظر ہیں
فساد سیاست سے نیم جاں بستی
یہ خواجگان سیاست کے مرثیہ خواں ہیں
’’اعراف‘‘ کی بیشر نظموں میںریاست کی اندوہ ناک صورت حال اور لوگوں پر ڈھائے جارہے ظلم وستم کی داستان الم بیان ہوئی ہے‘جس کی بنیاد پر یہ نظمیں مزاحمتی ادب (Resistant Literature)کے زمرے میں آتی ہیں ۔نظم’’سرخ لکیروں کا سفر‘‘آگرہ مذاکرات(۲۰۰۱)کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔شاعر ‘مسئلہ کشمیر کے تعلق سے ان جیسے سیاسی مذاکرات کو تواریخی فریب کے ذریعے سرخ لکیروں کا سفر تصور کرتا ہے اور ان مذاکرات کاروں کو شہر ماتم کے وکیل کہہ کر فریاد کرتا ہے کہ بار بار مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد کیا قتل وغارت گری کو روکنے کا کوئی حل نکل آیا۔یہ سب مکروفریب کی ادا کاری ہے۔
یہ مسیحا بھی ادا کار
یہ مسیحائی بھی فریب
۔۔۔
شہر ماتم کے وکیلوں سے کہو! کیا ہے
اتنے معصوم لہو کا درماں ؟
۔۔۔
’ ’تاج محل ‘‘تیرے دامن میں ہے خوش گفتار سیاست
سرخ لکیروں کا سفر ہے جاری
فنی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو شاعری صرف سطحی خیالات کا منظوم اظہار نہیں ہیں بلکہ شعر میں شعریت کا جوہر ہونا چاہئے جو کہ شاعر کے قوت تخیل (Imagination Power)کے تخلیقی اظہار پر مدار رکھتا ہے۔اس کے لئے فنی و لسانی شعور ‘ جمالیاتی احساس‘ عصری حسیت کے علاوہ تخلیقی اظہار کا جوہرہونا لازمی ہے۔اس تناظر میں دیکھیں تو پیش نظر مجموعہ ’’اعراف‘‘ بہت حد تک شعر ی لوازمات پر پورا اترتا ہوا نظر آتا ہے اگر چہ نظموں اور غزلوں میں کہیں کہیں پر صرف لسانی صنعت گری کا غلبہ اور سطحی خیالات کا اظہار ہی دکھائی دیتا ہے تاہم مجموعی طور پر کلام میں عصری موضوعات اور جمالیاتی احساس کے ساتھ ساتھ تخلیقی اظہار کا معیاری فنی و لسانی اظہار نظر آتا ہے جو کہ قاری کے احساس کو ضرور متاثر کردیتا ہے۔ مجموعے کے بیشتر غزلیہ اشعار میں حرف و معنی کا دلکش امتزاج ‘ تشبیہ و استعارہ اورعلامات کا مناسب موضوعی برتاؤبرمحل نظر آتا ہے۔ان اشعار میںکہیں پر اپنے وجود کے احسا س کی بے خبری تو کہیں پر اپنے کردار کی شناخت کا اثبات ‘کہیں پر انسان کی بربریت پر تشویش تو کہیں پرمردہ ضمیر انسانوں کی بے حسی پر کف افسوس‘اسی طرح عصرحاضر کی آتشین صورت حال کو نار نمرد سے تشبیہ دیکر حضرت خلیل ؑکے ظہور کی تمنا اور عربوں کی فریب خوردہ ذہنیت وغیرہ جیسے کئی سیاسی و سماجی معاملات و مسائل پر متاثر کن فنکارانہ اظہار قاری کی سوچ کو متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
ہم ہیں اپنے وجود کے منکر
بولتی ہے کتاب آنگن میں
میں اس چہرے پہ کیوں چہرہ سجاؤں
کہ ہر چہرہ ‘ زمانہ جانتا ہے
ہم ہیں آدم خور بستی کے مکیں
کون قاتل ؟ کون منصف؟ کیا یقیں
آسیہؔ کا قتل کرتا ہے سوال
کن ضمیروں کا قلم ہوگا امیں
دہک رہی نمرود ؔ کی آگ
مانگ خدا سے آج خلیل
یہاں سب قید سَحَر سامری میں
کہیں عرفان کا سورج اگا دے
فرشتے شہر میں بستے نہیں ہیں
مگر انسان کیوں ملتے نہیں ہیں؟
ہمارے جسم جب نیلام ہوں گے
ضمیروں کو کوئی صدمہ نہ ہوگا
نفرتیں پالتے ہیں سینوں میں
اور سجدے دراز کرتے ہیں
فریب مغرب کے ہیں عرب گرویدہ
خدائے برحق‘ وہ نصرتیں کس پر ؟
سیاسی شہر کے سارے کفن چور
نئے احرام ‘ کرتے روز تعمیر
مجموعی طور پر کتاب کا مطالعہ فیض بخش رہا کیونکہ کلام کی معیاری معنویت ایک کہنہ مشق اور باشعور شاعر کی غمازی کرتی ہے۔کتاب کو محترم عبدالرحمن مخلص ؔ(مرحوم)‘محترم ایاز رسول نازکیؔ اور ڈاکٹر جوہر قدوسی صاحب نے اپنے مفید خیالات و تاثرات سے نوازا ہیں۔شہباز راجوروی کے فن اور شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے جناب ایازرسول نازکی حصہ غزلیات پر لکھتے ہیں:
’’کشمیری میں شہباز خوبصورت غزل کہتا ہے‘اردو میں اس کا اپنا رنگ ہے‘
کچھ کچھ روایت آمیز اور کچھ کچھ جدید لب و لہجہ۔بہرحال ان کے غزلیات کے اس حصے میں کئی غزلیں ایسی ہیں جن پر کسی بھی شاعر کو ناز ہو‘ان غزلوں میں ماحول اور فضا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔شہباز کی غزل کا سا راتانا بانا عصری حالات و واقعات سے ہی تیار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔‘‘
(اعراف۔۔۔ص۱۳)
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر19322،موبائل ؛9906834877